در قفس سے پرے جب صباء گزرتی ہے
کسے خبر کے اسیروں پر کیا گزرتی ہے
تعلق کبھی اس قدر نا ٹوٹے تھے
کے تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے
وہ اب ملے بھی تو ملتا ہے اس طرح جیسے
بجھے چراغوں کو چھو کر ہوا گزرتی ہے
فقیر کب کے گئے جنگلوں کی سمت مگر
گلی سے آج بھی ان کی صدا گزرتی ہے
یہ اہل ہجر کی بستی ہے ، احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں انتہا گزرتی ہے
بھنور سے بچ تو گئیں کشتیاں مگر اب کے
دلوں کی خیر کے موج بلا گزرتی ہے
نا پوچھ اپنی انا کی بغاوتیں محسن
در قبول سے بچ کر دعا گزرتی ہے
کسے خبر کے اسیروں پر کیا گزرتی ہے
تعلق کبھی اس قدر نا ٹوٹے تھے
کے تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے
وہ اب ملے بھی تو ملتا ہے اس طرح جیسے
بجھے چراغوں کو چھو کر ہوا گزرتی ہے
فقیر کب کے گئے جنگلوں کی سمت مگر
گلی سے آج بھی ان کی صدا گزرتی ہے
یہ اہل ہجر کی بستی ہے ، احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں انتہا گزرتی ہے
بھنور سے بچ تو گئیں کشتیاں مگر اب کے
دلوں کی خیر کے موج بلا گزرتی ہے
نا پوچھ اپنی انا کی بغاوتیں محسن
در قبول سے بچ کر دعا گزرتی ہے
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔