Pages

Subscribe:

Friday 18 May 2012

وہی خدا ہے کہ جو افلاک سے اترتا نہیں Pas-e-shafaq mujhey khoon-e-jigar nazar ayey

پسِ شفق مُجھے خُونِ جگر نظر آئے
غروُب ہوتا ہوُا اِک بشر نظر آئے

مَیں کس زباں سے گہر کو گہر کہوں، کہ مجھے
صدف صدف میں ہجومِ شرر نظر آئے

مَیں جب بھی عالمِ حیرت میں آئینہ دیکھوں
ہزار نیزوں پہ اپنا ہی سر نظر آئے

عجیب پیشہ روی کے عجیب تر معیار
جو سنگ زن ہے وہ آئینہ گر نظر آئے

زمیں سے پیچھے کہیں رہ گئے میرے دیہات
وہاں تو آج بھی دورِ حجر نظر آئے

جو سطح پر ہی رہا، فاضلِ اجل ٹھہرا
جو تہہ میں ڈُوب گیا، بے خبر نظر آئے

وہی خدا، کہ جو افلاک سے اُترتا نہیں
اُسی کا عکس مجھے خاک پر نظر آئے

بُرا نہ مانے اگر محتسب، تو عرض کروں
مجھے گلوں میں فرشتوں کے گھر نظر آئے

مَیں جب بھی فکر کے پرتول کر روانہ ہوُا
فلک کے گنبدِ بے در میں در نظر آئے

کبھی تو پونچھ کے آنسو بھی، دیکھ دُنیا تو
کہ چشمِ تر سے تو بس چشمِ تر نظر آئے

میرے نصیب میں چھاؤں اگر نہیں، نہ سہی
کڑکتی دُھوپ میں دُور اِک شجر نظر آئے

ندیم میری رجا لا علاج ہے شاید
کہ دِل جلے تو طلوعِ سحر نظر آئے

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔