زخم بھر جاتے ہیں
ذہنوں سے اُتَر جاتے ہیں
دن گزرتا ہے تو پھر شب بھی گزر جاتی ہے
پھول جس شاخ سے جھڑ جاتے ہیں
مر جاتے ہیں
چند ہی روز میں
اس شاخ پہ آئندہ کے پھولوں کے نگینے سے
ابھر آتے ہیں !
تیرے جانے سے میری ذات کے اندر
جو خلا گونجتا ہے
اک نا اک دن اسے بھر جانا ہے
اک نا اک روز تجھے
میری پھیلی ہوئی ، ترسی ہوئی بانہوں میں
پلٹ آنا ہے !
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔