چراغ بن کے وہی جھلملائے شام فراق
بچا لئے تھے جو آنسو برائے شام فراق
کرھر چلے گئے وہ ہم نوائے شام فراق
کھڑی ہے در پہ مرے سر جھکائے شام فراق
یہ رینگتی چلی آتی ہیں کیا لکیریں سی
یہ ڈھونڈتی ہیں کسے سائے سائے شام فراق
کبھی یہ فکر کہ دن کو بھی منہ دکھانا ہے
کبھی یہ غم کہ پھر آئے نہ آئے شام فراق
وہ اشک خوں ہی سہی دل کا کوئی رنگ تو ہو
اب آ گئی ہے تو خالی نہ جائے شام فراق
بجھی بجھی سی ہے کیوں چاند کی ضیا ناصر
کہاں چلی ہے یہ کاسہ اُٹھائے شام فراق
بچا لئے تھے جو آنسو برائے شام فراق
کرھر چلے گئے وہ ہم نوائے شام فراق
کھڑی ہے در پہ مرے سر جھکائے شام فراق
یہ رینگتی چلی آتی ہیں کیا لکیریں سی
یہ ڈھونڈتی ہیں کسے سائے سائے شام فراق
کبھی یہ فکر کہ دن کو بھی منہ دکھانا ہے
کبھی یہ غم کہ پھر آئے نہ آئے شام فراق
وہ اشک خوں ہی سہی دل کا کوئی رنگ تو ہو
اب آ گئی ہے تو خالی نہ جائے شام فراق
بجھی بجھی سی ہے کیوں چاند کی ضیا ناصر
کہاں چلی ہے یہ کاسہ اُٹھائے شام فراق
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔