Pages

Subscribe:

Monday 21 January 2013

اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالۂ دلفگار بن کر Agarcha hum ja rahey hain mehfil say

اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالۂ دلفگار بن کر
مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمۂ نوبہار بن کر

یہ کیا قیامت ہے باغبانو کہ جن کی خاطر بہار آئی
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمہاری آنکھوں میں خار بن کر

جہاں والے ہمارے گیتوں سے جائزہ لیں گے سسکیوں کا
جہان میں پھیل جائیں گے ہم بشر بشر کی پکار بن کر

بہار کی بدنصیب راتیں بلا رہی ہیں چلے بھی آؤ
کسی ستارے کا روپ لے کر کسی کے دل کا قرار بن کر

تلاش منزل کے مرحلوں میں یہ حادثہ اک عجیب دیکھا
فریب راہوں میں بیٹھ جاتا ہے صورت اعتبار بن کر

غرور مستی نے مار ڈالا وگرنہ ہم لوگ جی ہی لیتے
کسی کی آنکھوں کا نور ہو کر کسی کے دل کا قرار بن کر

دیارِ پیر مغاں میں آ کر یہ اک حقیقت کھلی ہے ساغر
خدا کی بستی میں رہنے والے تو لوٹ لیتے ہیں یار بن کر
مکمل تحریر اور تبصرے >>

پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دیے Poocha kisi ney haal kisi ka to ro diyey

پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دیے
پانی میں عکس چاند کا دیکھا تو رو دیے

نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو رو دیے
غنچہ کسی نے شاخ سے توڑا تو رو دیے

اڑتا ہوا غبار سرِ راہ دیکھ کر
انجام ہم نے عشق کا سوچا تو رو دیے

بادل فضا میں آپ کی تصویر بن گئے
سایہ کوئی خیال سے گزرا تو رو دیے

رنگِ شفق سے آگ شگوفوں میں لگ گئی
ساغر ہمارے ہاتھ سے چھلکا تو رو دیے
مکمل تحریر اور تبصرے >>

نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس پر اسرار سا ہے Nazar nazar beqrar si hai nafas nafas purisrar sa hai

نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس پر اسرار سا ہے
میں جانتا ہوں کہ تم نہ آؤ گے پھر بھی کچھ انتظار سا ہے

مرے عزیزو! میرے رفیقو! چلو کوئی داستان چھیڑو
غم زمانہ کی بات چھوڑو یہ غم تو اب سازگار سا ہے

وہی فسر دہ سا رنگ محفل وہی ترا ایک عام جلوہ
مری نگاہوں میں بار سا تھا مری نگاہوں میں بار سا ہے

کبھی تو آؤ ! کبھی تو بیٹھو! کبھی تو دیکھو! کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے

چلو کہ جشن بہار دیکھیں چلو کہ ظرف بہار جانچیں
چمن چمن روشنی ہوئی ہے کلی کلی پہ نکھار سا ہے

یہ زلف بر دوش کون آیا یہ کس کی آہٹ سے گل کھلے ہیں
مہک رہی ہے فضائے ہستی تمام عالم بہار سا ہے
مکمل تحریر اور تبصرے >>

میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کی پی گیا Mein talhi e hayat say ghabra key pi gya

میں تلخیِ حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا

اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا

چھلکے ہوئے تھے جام، پریشان تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

میں آدمی ہوں، کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا

دنیائے حادثات ہے اک درد ناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Wednesday 16 January 2013

فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے سب اچھا Fizayey neem shabi keh rahi hai sab acha

فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے سب اچھا
    ہماری بادہ کشی کہہ رہی ہے سب اچھا

    نہ اعتبارِ محبت، نہ اختیارِ وفا
    جُنوں کی تیز روی کہہ رہی ہے سب اچھا

    دیارِ ماہ میں تعمیر مَے کدے ہوں گے
    کہ دامنوں کی تہی کہہ رہی ہے سب اچھا

    قفس میں یُوں بھی تسلّی بہار نے دی ہے
    چٹک کے جیسے کلی کہہ رہی ہے سب اچھا

    وہ آشنائے حقیقت نہیں تو کیا غم ہے
    حدیثِ نامہ بَری کہہ رہی ہے سب اچھا

    تڑپ تڑپ کے شبِ ہجر کاٹنے والو
    نئی سحر کی گھڑی کہہ رہی ہے سب اچھا

    حیات و موت کی تفریق کیا کریں ساغر
    ہماری شانِ خود کہہ رہی ہے سب اچھا
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Monday 14 January 2013

زلفوں کی گھٹائیں پی جاؤ Zulfoon ki ghatayen pi jao

زلفوں کی گھٹائیں پی جاؤ
وہ جو بھی پلائیں پی جاؤ

اے تشنہ دہانِ جور خزاں
پھولوں کی ادائیں پی جاؤ

تاریکی دوراں کے مارو
صبحوں کی ضیائیں پی جاؤ

نغمات کا رس بھی نشہ ہے
بربط کی صدائیں پی جاؤ

مخمور شرابوں کے بدلے
رنگین خطائیں پی جاؤ

اشکوں کا مچلنا ٹھیک نہیں
بے چین دعائیں پی جاؤ
مکمل تحریر اور تبصرے >>

برگشتۂ یزداں سے کچھ بھول ہوئی ہے Bar gashta e yazdaan sey kuch bhool hoi hai

برگشتۂ یزداں سے کچھ بھول ہوئی ہے
بھٹکے ہوئے انساں سے کچھ بھول ہوئی ہے

تا حّد نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں
پھولوں کے نگہباں سے کچھ بھول ہوئی ہے

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کچھ بھول ہوئی ہے

ہنستے ہیں مری صورت مفتوں پہ شگوفے
میرے دل ناداں سے کچھ بھول ہوئی ہے

حوروں کی طلب اور مئے و ساغر سے ہے نفرت
زاہد! ترے عرفاں سے کچھ بھول ہوئی ہے
مکمل تحریر اور تبصرے >>

کوئی نالہ یہاں رسا نہ ہوا Koi naala yahan rasa na howa

کوئی نالہ یہاں رسا نہ ہوا
اشک بھی حرفِ مدعا نہ ہوا

تلخی درد ہی مقدر تھی
جامِ عشرت ہمیں عطا نہ ہوا

ماہتابی نگاہ والوں سے
دل کے داغوں کا سامنا نہ ہوا

آپ رسمِ جفا کے قائل ہیں
میں اسیرِ غمِ وفا نہ ہوا

وہ شہنشہ نہیں بھکاری ہے
جو فقیروں کا آسرا نہ ہوا

رہزن عقل و ہوش دیوانہ
عشق میں کوئی رہنما نہ ہوا

ڈوبنے کا خیال تھا ساغر
ہائے ساحل پہ ناخدا نہ ہوا
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Thursday 10 January 2013

یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا Yaqeen kar k yey kuhna nizam badley ga


یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا
مرا شعور مزاج عوام بدلے گا

یہ کہہ رہی ہیں فضائیں بہار ہستی کی
نیا طریق قفس اور دام بدلے گا

نفس نفس میں شرارے سے کروٹیں لیں گے
دلوں میں جذبہء محشر خرام بدلے گا

مروتوں کے جنازے اٹھائے جائیں گے
سنا ہے ذوق سلام و پیام بدلے گا

دل و نظر کو عطا ہوں گی مستیاں ساغر
یہ بزم ساقی یہ بادہ یہ جام بدلے گا
مکمل تحریر اور تبصرے >>

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں Aik wada hai kisi ka jo wafa hota nahin

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے کا نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں

شمع جسکی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے ، فنا ہوتا نہیں

اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو انکا طور پر بھی سامنا ہوتا نہیں

ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں

ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں

ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Tuesday 8 January 2013

آخری بار ملو Akhri baar milo

آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوے دل
راکھ ہو جائیں ،کوئ اور تمنا نہ کریں
چاکِ وعدہ نہ سلے،زخمِ تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے ،شمع کی لو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آ کر گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئ امید تو آنکھیں چھن جائیں

اُس ملاقات کا اس بار کوئ وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جُنوں کا نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدیدِ وفا کا نہ شکایات کا وقت
لُٹ گئ شہرِ حوادث میں متاعِ الفاظ
اب جو کہنا ہو تو کیسے کوئ نوحہ کہیے
آج تک تم سے رگِ جاں کا کئ رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے

پھر نہ دہکیں گے کبھی عارضِ و رُخسار ملو
ماتمی ہیں دَمِ رخصت در و دیوار ملو
پھر نہ ہم ہوں گے ،نہ اقرار،نہ انکار،ملو
آخری بار ملو۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Saturday 5 January 2013

اب کے مٹی کی عبارت میں لکھی جائے گی Ab key mitti ki ebadat mein likhi

اب کے مٹی کی عبارت میں لکھی جائے گی
سبز پتّوں کی کہانی رُخِ شاداب کی بات
کل کے دریاؤں کی مٹتی ہوئ مبہم تحریر
اب فقط ریت کے دامن میں نظر آئے گی
بُوند بَھر نَم کو ترس جائے گی بے سود دعا
نَم اگر ہو گی کوئ چیز تو میری آنکھیں
میری پلکوں کے دریچے مری بنجر آنکھیں
میرا اُجڑا ہو چہرہ ، مری پتھر آنکھیں
قحط افسانہ نہیں اور یہ بے ابر فلک
آج اُس دیس کل اس دیس کا وارث ہوگا
ہم سے ترکے میں ملیں گے اُسے بیمار درخت
تیز کرنوں کی تمازت سے چٹختے ہوئے ہونٹ
دھُوپ کا حرفِ جنوں ، لُو کا وصّیت نامہ
اور مِرے شہرِ طلسمات کی بے در آنکھیں
مِری بے در مِری بنجر ، مِری پتھر آنکھیں
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Thursday 3 January 2013

مجبور شکایت ہوں تاثیر کو کیا کہیے Majboor shikyat hoon taseer ko kia keheyey

مجبور شکایت ہوں تاثیر کو کیا کہیے
تدبیر مقدر تھی تقدیر کو کیا کہیے

فردوس بداماں ہے ہر نقش خیال ان کا
یہ شان تصور ہے تصویر کو کیا کہیے

وابستہ صد حسرت، بے واسطہ دل ہوں
اپنا ہی میں زنداں ہوں زنجیر کو کیا کہیے

وہ برق کی یورش ہے ہر شاخ میں لرزش ہے
ایسے میں نشیمن کی تعمیر کو کیا کہیے

سنتے ہیں حجاب ان کا عرفان تمنا ہے
اب حرف تمنا کی تعبیر کو کیا کہیے

یا رب! تری رحمت سے مایوس نہیں فانی
لیکن تری رحمت کی تاخیر کو کیا کہیے
مکمل تحریر اور تبصرے >>