Pages

Subscribe:

Monday 21 January 2013

میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کی پی گیا Mein talhi e hayat say ghabra key pi gya

میں تلخیِ حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا

اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا

چھلکے ہوئے تھے جام، پریشان تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

میں آدمی ہوں، کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا

دنیائے حادثات ہے اک درد ناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔