Pages

Subscribe:

Friday 6 July 2012

ہم سے مت پوچھو راستے گھر کے Hum sey mat poocho rastey ghar key

ہم سے مت پوچھو راستے گھر کے
ہم مسافر ہیں زندگی بھر کے
کون سورج کی آنکھ سے دن بھر
زخم گنتا ہے شب کی چادر کے
صلح کر لی یہ سوچ کر میں نے
میرے دشمن نہ تھے برابر کے
خود سے خیمے جلا دیئے میں نے
حوصلے دیکھنا تھے لشکر کے
یہ ستارے یہ ٹوٹتے موتی
عکس ہیں میرے دیدہ تر کے
گر جنوں مصلحت نہ اپنائے
سارے رشتے ہیں پتھر کے
محسن نقوی

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔