ہم سے مت پوچھو راستے گھر کے
ہم مسافر ہیں زندگی بھر کے
ہم مسافر ہیں زندگی بھر کے
کون سورج کی آنکھ سے دن بھر
زخم گنتا ہے شب کی چادر کے
زخم گنتا ہے شب کی چادر کے
صلح کر لی یہ سوچ کر میں نے
میرے دشمن نہ تھے برابر کے
میرے دشمن نہ تھے برابر کے
خود سے خیمے جلا دیئے میں نے
حوصلے دیکھنا تھے لشکر کے
حوصلے دیکھنا تھے لشکر کے
یہ ستارے یہ ٹوٹتے موتی
عکس ہیں میرے دیدہ تر کے
عکس ہیں میرے دیدہ تر کے
گر جنوں مصلحت نہ اپنائے
سارے رشتے ہیں پتھر کے
سارے رشتے ہیں پتھر کے
محسن نقوی
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔