تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا
مجھ سے جدا ہوا تھا مگر بے وفا نہ تھا
مجھ سے جدا ہوا تھا مگر بے وفا نہ تھا
طرفہ عذاب لائے گی اب اس کی بددعا
دروازہ جس پہ شہر کا کوئی کھلا نہ تھا
دروازہ جس پہ شہر کا کوئی کھلا نہ تھا
شامل تو ہوگئے تھے سبھی اک جلوس میں
لیکن کوئی کسی کو بھی پہچانتا نہ تھا
لیکن کوئی کسی کو بھی پہچانتا نہ تھا
آگاہ تھا میں یوں تو حقیقت کے راز سے
اظہار حق کا دل کو مگر حوصلہ نہ تھا
اظہار حق کا دل کو مگر حوصلہ نہ تھا
جو آشنا تھا مجھ سے بہت دور رہ گیا
جو ساتھ چل رہا تھا مرا آشنا نہ تھا
جو ساتھ چل رہا تھا مرا آشنا نہ تھا
سب چل رہے تھے یوں تو بڑے اعتماد سے
لیکن کسی سے پاؤں تلے راستہ نہ تھا
لیکن کسی سے پاؤں تلے راستہ نہ تھا
ذروں میں آفتاب نمایا تھے جن دنوں
واصف وہ کیسا دور تھا وہ کیا زمانہ تھا
واصف وہ کیسا دور تھا وہ کیا زمانہ تھا
واصف علی واصف
2 comments:
واصف علی واصف کی شاعری پہلی بار پڑھی ہے مذید ملے تو شئیر کیجیے گا۔
جی ضرور
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔