Pages

Subscribe:

Sunday 8 July 2012

اس شہر میں اب شور سگاں کیوں نہیں اٹھتا Iss sheher mein ab shor-e-sagan kioon nahin uthta

اس شہر میں اب شورِ سگاں کیوں نہیں اٹھتا
آباد مکاں ہیں تو دھواں کیوں نہیں اٹھتا
اٹھتے ہیں چمکنے کے لئے ننھّے سے جگنو
سورج! کوئی آشوبِ جہاں کیوں نہیں اٹھتا
زندہ ہے ابھی شہر میں فن تیشہ گری کا
بازو ہیں تو پھر سنگِ گراں کیوں نہیں اٹھتا
کیا رزق فقیروں کا فرشتوں میں بٹے گا
منصف کوئی اس خاک سے یاں کیوں نہیں اٹھتا
تینتیس بہاروں کا ثمر چکھ کے بھی مجھ سے
دو چار قدم رختِ جہاں کیوں نہیں اٹھتا
شہرت کی کمیں گاہوں میں قد ناپنے والو!
تم سے کبھی غیرت کا نشاں کیوں نہیں اٹھتا
رستے میں ابھی ریت کی دیوار کھڑی ہے
راوی ترا سیلابِ جواں کیوں نہیں اٹھتا
سبط علی صبا

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔