Pages

Subscribe:

Sunday 29 July 2012

تعارف (منزل و محمل) Introduction Manzil-o-muhmil

تعارف
تبسم صاحب کے تعارف کے با ب میں مجھے قارئین کرام سے صرف یہ عرض کرنا ہے۔ کہ وہ رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں نہ ہی زلف کے ہالے میں رخسار کی چاندنی کے جویا۔ ان کی شاعری قومی اور معاشرتی تہذیب کا مقصد لئے ہوئے ہے۔ وہ خارجی حالات کو داخلی احساس و تاثر کے رنگ و انداز میں پیش کرتےہیں۔ یہ حقیقت ان کے پہلے مجموعہ کلام ""حال و خیال"" میں بھی جا بجا نظر آتی ہے۔ اور اس کتاب ""منزل و محمل"" میں بھی۔ اس کے حصہ دوم کے مشمولات میں اب کے برس۔ چھ ستمبر۔ تیر بھی کوئی ہمارے پاس ہے تدبیر کا۔ اے قافلہ سالار۔ عراق امریکہ جنگ۔ شاکی ہے اک شخص۔  اور خسن و جمال تھی اول اول۔ ایسی غزلیں ہیں جن کے موضوعات ان کے اپنے مخصوص زاویہؑ نظر کی نشاندہی کرتی ہے۔ ذرا سی کاوش سے یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ان کی تڑپ اور کرب ذات سے بالا ہے وہ اجتماعی مستقبل کی تعمیر کے لئے حال کے خط و خال کو ترتیب اور سلیقہ یا اخلاق و اوصاف کی ہنر مندی کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں۔ مثلاََ
چوراہے میں جو پچھلے پہر قتل ہوا ہے
سب کہتے ہیں وہ شخص تو بندہ تھا خدا کا
وحشی تھی وہ انساں نہ تھا۔ جس نے اچانک
دھمکی بھی نہ دی چپکے سے کر ڈالا دھماکا
کتاب کے نام کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے ذیل کے دو شعر پیش کروں گا۔ اور عرض کروں گا پڑھئے۔ اور غور کیجئے۔ اور مجھے اجازت دیجئے
قطرہ نہ پایا ساحل ساحل   تشنہ لبی نے چلتے چلتے
بھوک نے مانگا دانہ دانہ    خرمن خرمن دہقاں دہقاں 
قیس نے چھانی منزل منزل    بے لیلیٰ ہے محمل محمل
دشتِ جنوں کا گوشہ گوشہ    وحشت دل کا ساماں ساماں
ایم۔ اے۔ شاد

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔