Pages

Subscribe:

Sunday 29 July 2012

عرضِ نیاز (منزل و محمل) Arz-e-niaz

                                                                                              عرضِ نیاز
برصغیر کی تاریخ میں انیس سو اڑتالیس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ قومی اور ملی اعتبار سے بھی۔ کہ  یہ آزادی کا اولین اور اساسی سال تھا اور مسلمان قافلہ در قافلہ نقلِ مقانی کر کے بھارت سے نوزائیدہ مملکت خداداد پاکستان آ رہے تھے۔ اور انفرادی اور ذاتی لحاظ سے بھی۔ کہ صحیح سالم اور بعافیت منزل پر پہنچ جانے کے بعد ہر شخص یا کنبہ کسی کوچہ شہر۔  قصبےیا قریے میں پناہ لے کر آباد ہو رہا تھا۔ رنگ۔ بولی۔ لباس اور خاندان یا برادری کے امتیازات بھول کر نئے ماحول اور معاشرے میں جذب ہو رہا تھا۔ از سرِ نو زندگی کی ابتدا کر رہا تھا
دگر از سر گر فتم قصہ زلف پریشاں را
ایک ہی بات وجہ سکوں تھی۔ کہ مسلماں کہیں کا ہو۔ مسلمان کا بھائی ہے۔ اور ہم دشمنوں سے بچ کر اپنے بھائیوں کے پاس آ گئے ہیں۔ مگر وادیِ پر خار کے سفر کی کوفت نے اعصاب شل کر دئیے تھے۔ اور صورت حال ایسی تھی۔ کہ کسی کو مستقبل کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ تھی۔ ماحول کو ساز گار بنانا تھا جانبین کی طرف سے کس طرح کے کردار و عمل کا مظاہرہ ہو
شکریہ پرسش احوال ترا عین کرم
وہ مگر درد جو دل میں ابھی پیدا ہی نہیں
ان دنوں جہاد کشمیر کا غلغلہ تھا۔ ہندو نے فرنگی سے ملی بگھت کر کے پاکستان سے اس کے الحاق کی راہ روک دی تھی۔ اور ریاستوں کے الحاق اصول و ضوابط کی صریح خلاف ورزی کی۔ شیح عبداللہ جیسے لوگوں کو فریب سے شیشے میں اتارا۔ اور وادی پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ کشمیر کے عوام یہ ستم کب برداشت کر سکتے تھے۔ وہ اٹھ کھڑے  ہوئے۔ اور پاکستان بھر میں کشمیر چلو کا نعرہ گونج اٹھا۔ پہاڑوں سے قبائلی افغانوں کا ایک سیل رواں اترا اور اس ہیبت و جلال سے آگے بڑھا کہ ہندوکے طمطراق اور سازوسامان کو  خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا۔ لیکن افسوس کہ جب مجاہدین جموں اور سرینگر کو روند ڈالنے والے تھے۔ اور بھارت کی شرمناک شکست پر مہر لگنے والی تھی۔ وہ مکاری اور عیاری سے سلامتی کونسل کو درمیان میں لے آیا اور صلحنامے پر اتفاق کروا لیا جس کی کسی بھی شق پر عملدرآمد کیلئے آج تک آمادہ نہیں ہوا نہتے کشمیری عوام پر انسانیت سوز مظالم توڑ رہا ہے۔ ٹس سے مس ہوتا ہے اور نہ عالمی رائے عامہ کی مذمت سے شرماتا ہے
کب تک نگہ غیر سے امید نوازش
تو شیر اگر ہے تو بپھر کیوں نہیں جاتا
مجاہدین کا لشکرِ جرار شہر کے مین بازار میں اڈا کی طرف سے داخل ہوا لوگ دیدہ و دل فرش راہ کئے دو رویہ کھڑے ہو گئے۔ میں مشایعت کیلئے ساتھ چلا۔ فضا قدموں کی ٹاپ سے اور ہوا نعرہؑ تکبیر کی ولولہ انگیز صداؤں سے معمور ہو گئی۔ تیراہ بہرام خاں سے مجاہدین کا رخ ٹانڈہ کی جانب ہوا تو میں  رک گیا۔ میں نے دیکھا۔ جوش جذبہ جہاد سے ان کے چہرے سرخ تھے۔ کپڑے خاک میں اَٹے ہوئے تھے۔ اکثر کے پاؤں میں جوتا نہیں تھا۔ مگر آنکھوں میں عزم و حوصلہ کی چمک تھی۔ جس سے نظر خیرہ ہو کر رہ جاتی
ہیں مرد مجاہد کے بھی انداز نرالے
رفتار قیامت کی ہے اور پاؤں میں چھالے
اللہ تمھیں فتح دے خدا تمھارا حامی و ناصر ہو۔ اکثر نے دعا دی اور سب نے آمین کہا۔ مجاہدیں وداع ہو گئے۔ میں اس وقت دم بخود لشکر کو دور آگے بڑھتا ہوا مطب حسینیہ کے چوبی چبوترے پر کھڑا دیکھ رہا تھا۔ اور پس و پیش سے بے نیاز و بے خبر تھا۔ یکا یک آواز آئی۔ اندا آ جائیے۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ اندر دو باریش بزرگ تشریف رکھتے تھے۔ میں اسلام علیکم کہتے ہوئے آگے بڑھ کر بیٹھ گیا۔ اس وقت مطب میں کوئی مریض نہیں تھا۔ اور شاہ صاحب فارغ تھے۔ مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ تعارف کرائیے۔ مگر مختصر نہیں۔ مکمل تعارف۔ میں نے عرض کیا۔ محمد مسعود میرا نام ہے۔ اسی شہر میں پیدا ہوا۔ مگر اٹھارہ برس بعد واپس آیا ہوں اب تک پردیسی تھا۔ آج مہاجر ہوں مگر میری ہجرت کو وطن میں ماننے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں حالانکہ اس سلسلہ میں تمام مصائب و آلام سے دو چار ہوا ہوں۔ ہمارا بھی حال آپ جیساہے۔ شاہ صاحب نے فرمایا۔ ہم نے ترکِ وطن کیا۔ اور ہجرت بھی۔ مگر نہ مہاجر ہیں نہ مقامی۔ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں۔؟ میں دارالسلام عمر آباد سے آیا ہوں۔ یہ درس نظامی کی ایک اونچی اور بلند پایہ درسگاہ ہے۔ بنگلور اور مدراس کے درمیان۔ ضلع نارتھ آرکاٹ جنوبی ہندمیں۔  ہم امرتسر میں تھے۔ ہم تین بھائی ہیں۔ وہاں بھی طبابت کرتا تھا۔ آپ ہندوستان کے بالکل دوسری طرف چلے گئے۔ اس کی کوئی خاص وجہ ہے۔ دارالعلوم اور درسگاہیں تو ادھر بھی ہر بڑے شہر میں موجود تھیں۔ میں نے دارلحدیث باڑہ ہندو راؤ دھلی سے تعلیم کا آغاز کیا۔ یہ اتفاق تھا کہ عبدالباقی اعظمی میرے ہمدرس دوست نے دارالسلام کے لئے رخت سفر جمع کیا اور باندھا تو میں بھی ساتھ ہو لیا۔ اس لئے ہمدمیِ دوست بھی عزیز تھی۔ اور وہاں ادب اور معقولات کے اساتذہ کے سبب درسگاہ کا بھی بڑا شہرہ تھا۔
تعارف کے بعد شاہ صاحب نے اصرار کیا۔ کہ میں مطب میں حاضری دیا کروں۔ پھر یہ حاضری میرا معمول بن گئی۔ اور مطب شہر کا حلقہ دانشوراں۔ خواجہ اللہ دتہ گوہر۔منظر بجنوری۔ مفتوں مراد آبادی۔ اور غلام مصطفیٰ طالب جیسے شعرائے کرام اور سید نظر حسین شاہ (شاہ صاحب کے برادرِ صغیر)۔ شیخ    غلام حسین ریلوے گارڈ (ریٹائرڈ)۔ اور مولوی نظیرالحق میرٹھی جیسے اہلِ علم اصحاب اس حلقہ دانشوراں سے وابستہ ہو گئے۔ مذہب۔ اقبالیات۔ اور علم و ادب کے ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو اور بحث ہوتی۔ مولانا میرٹھی کی سر پرستی میں مجلسِ علم و ادب کی داغ بیل ڈالی گئی۔ جس کے زیر اہتمام ہر جمعتہ المبارک کو شہری سطح پر خصوصی اور ادبی اجلاس منعقد ہوتا۔ اجلاس کیلئے مقالات و مضامین کے موضوعات اور عنوان اور مشاعرے کیلئے مصرعہ طرح کا انتخاب اور تعیین ہوتا اس طرح مطب کو ہر نوجوان نگار یا شاعر کیلئے گہوارہ علم و حکمت اور ادبگاہ کی حیثیت حاصل رہی۔ اور وہ تربیت پا کر پروان چڑھتے رہے
ٹھہرا گیا ہے  لا کے جو منزل میں عشق کی
 رہبر تھا راہزن تھا نہ جانے وہ کون  تھا
زیر دست کتاب کے دو حصے ہیں۔ حصہ اول میں غزلیں ہیں۔ جو بر وقت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے  !!!حال و خیال!!! میں شامل نہ ہو سکیں۔ اور حصہ دوم میں وہ کلام ہے۔ جو ملک میں وقتاََ فوقتاََ رونما ہونے والے حالات کے زیر اثر یا کسی اور تقریبی داعیے کی وجہ سے کہا گیا۔ اس مجموعۂ کلام کا نام "منزل و محمل" رکھا ہے میں چاہتا ہوں۔ میرے ہموطن بالخصوص نوجوان اس احساس سے بہرہ ور ہوں کہ جہاں تھک کر محمل اتار دیا جاتا ہے۔ وہی جگہ منزل نہیں ہوتی۔ اور منزلِ مقصود تک پہنچنا اور محمل کو پہنچانا ہمارا ذاتی فرض اور قومی حمیت اور اجتماعی غیرت کی دلیل ہے۔ ہم بفضلہ مسلمان ہیں اور پاکستانی بھی۔ ہم نے اسلام کو فرقہ وارانہ تو جیہات اور تشریحات میں گم اور محدود پایا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اور یہ سوچ اور فکربھی جس سے اندازہ ہو سکے کہ سیاسی اعتبار سے جمہوریت کی جو نئی تعبیریں سامنے آ رہی ہیں۔ ان کے پس منظر میں جذبات کا کتنا خلوص کار فرما ہے۔ اور کتنی ذاتی منفعت یا خواہشِ اقتدار۔ محمل کو منزل تک لے جانے والوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے۔ جو ذہن دینی مسائل کی اصل شکل و صورت بدل سکتا ہے۔ اسے جمہوریت کے خط و خال بدلنے میں کیا پس و پیش یا تردد ہو سکتا ہے۔ جو انقلاب عالمی سطح پر رونما ہو چکا ہے۔ اور جس مستقبل کی منصوبہ بندی میں استعماری طاقتیں ابھی سے مصروف ہیں۔ ہمیں ان کا بہر حال مقابلہ کرنا پڑے گا اور اقوامِ عالم میں اپنا مقام پیدا کرنا اور اپنے امتیاز اور تشخص کو ابھارنا اور پھر باقی رکھنا ہمارا قومی اور ملی فریضہ ہے
کتاب کی ترتیب و تسوید کے باب میں میری خواہش سے زیادہ احباب کے اصرار کو دخل حاصل رہا ہے۔ بالخصوص ایم۔اے۔شاد کے جبرو اصرار کو ۔ انہوں نے مجھے مسلسل بے چین رکھا۔ اور مہمیز کرتے رہے۔
رحم آیا دوستوں کو میری پا شکستگی پر
تھاما جو ہاتھ میرا منزل پہ لا کے چھوڑا

م۔م۔تبسم کاشمیری


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔