اجنبی بن کے گزر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم محبت سے مکر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم محبت سے مکر جاتے تو اچھا ہوتا
جن کو تعبیر میسر نہیں اس دنیا میں
وہ حسیں خواب جو مر جاتے تو اچھا ہوتا
وہ حسیں خواب جو مر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم کو سب پھول نظر آتے ہیں بے مصرف سے
گر تری رہ میں بکھر جاتے تو اچھا ہوتا
گر تری رہ میں بکھر جاتے تو اچھا ہوتا
ان ستاروں کے چمکنے سے بھی کیا حاصل ہے
ہاں، تری مانگ کو بھر جاتے تو اچھا ہوتا
ہاں، تری مانگ کو بھر جاتے تو اچھا ہوتا
ابرِ باراں کے سبھی قطرے گہر ہیں لیکن
تیری آنکھوں میں اُتر جاتے تو اچھا ہوتا
تیری آنکھوں میں اُتر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم کو مارا ہے فقط تیز روی نے اپنی
سانس لینے کو ٹھہر جاتے تو اچھا ہوتا
سانس لینے کو ٹھہر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم کبھی شام سے آگے نہ گئے تیرے لیے
شام سے تا بہ سحر جاتے تو اچھا ہوتا
شام سے تا بہ سحر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم نے جو پھول چنے، کام نہ آئے اپنے
تیری دہلیز پہ دھر جاتے تو اچھا ہوتا
تیری دہلیز پہ دھر جاتے تو اچھا ہوتا
کس لیے سعدؔ مقدر کے بھروسے پہ رہے
ہم اگر خود ہی سنور جاتے تو اچھا ہوتا
ہم اگر خود ہی سنور جاتے تو اچھا ہوتا
سعد اللہ شاہ
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔