Thursday, 31 May 2012
آرزو راہبہ ہے بے کس و تنہا و حزیں Aarzoo rahba hai umer guzari jis ney
آرزو راہبہ ہے، عمر گزاری جس نے
انہی محروم ازل راہبوں، معبد کے نگہبانوں میں
ان مہ و سال یک آہنگ کے ایوانوں میں
کیسے معبد پہ ہے تاریکی کا سایہ بھاری
روئے معبود سے ہیں خون کے دھارے جاری
راہبہ رات کو معبد سے نکل آتی ہے
جھلملاتی ہوئی اک شمع لیے
لڑکھڑاتی ہوئی، فرش و در و دیوار سے ٹکراتی ہوئی
دل میں کہتی ہے کہ اس شمع کی لو ہی شاید
دور معبد سے بہت دور چمکتے ہوئے انوار کی تمثیل بنے
آنے والی سحرِ نو یہی قندیل بنے
آرزو راہبہ ہے بے کس و تنہا و حزیں
ہاں مگر راہبوں کو اس کی خبر ہو کیونکر
خود میں کھوئے ہوئے، سہمے ہوئے، سرگوشی سے ڈرتے ہوئے
راہبوں کو یہ خبر ہو کیونکر
کس لیے راہبہ ہے بےکس و تنہا و حزیں
راہب استادہ ہیں مرمر کی سلوں کے مانند
بے کراں عجز کی جاں سوختہ ویرانی میں
جس میں اُگتے نہیں دل سوزی انساں کے گلاب
راہبہ شمع لیے پھرتی ہے
یہ سمجھتی ہے کہ اس سے درِ معبد پہ کبھی
گھاس پر اوس جھلک اٹھے گی
سنگریزوں پہ کوئی چاپ سنائی دے گی
پا شکستہ سربریدہ خواب Pa shakasta sar bureeda khwaab
شہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ھوئے
پا شکستہ سر بریدہ خواب
جن سے شہر والے بے خبر!
گھومتا ہوں شہر کے گوشوں میں روز و شب
کہ ان کو جمع کر لوں
دل کی بھٹی میں تپاؤں
جس سے چھٹ جائے پرانا میل
ان کے دست و پا پھر سے ابھر آئیں
چمک اٹھیں لب و رخسار و گردن
جیسے نو آراستہ دولھوں کے دل کی حسرتیں
پھر سے ان خوابوں کو سمت رہ ملے!
“خواب لے لو خواب ـــــــــــ ”
صبح ہوتے ہی چوک میں جا کر لگاتا ہوں صدا ـــــــــ
“خواب اصلی ہیں کہ نقلی”
یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر
خواب داں کوئی نہ ہو!
خواب گر میں بھی نہیں
صورت گر ثانی ہوں بس ـــــــ
ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں!
شام ھو جاتی ہے
میں پھر سے لگاتا ہوں صدا ـــــــ
“مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب ـــــــــ”
“مفت” سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ ــــــــــ
“دیکھنا یہ “مفت” کہتا ہے
کوئی دھوکا نہ ہو!
ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو
گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں
یا پگھل جائیں یہ خواب
بھک سے اڑ جائیں کہیں
یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب ـــــــــ
جی نہیں کس کام کے؟
ایسے کباڑی کے یہ خواب
ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب!”
رات ہو جاتی ہے
خوابوں کے پلندے سر پہ رکھ کر
منہ بسورے لوٹتا ہوں
رات بھر پھر بڑبڑاتا ہوں
“یہ لے لو خواب ــــــــ”
اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی
خواب لے لو، خواب ــــــــــ
میرے خواب ـــــــــــ
خواب ـــــــــ میرے خواب ـــــــــ
خو ا ا ا ا ب ــــــــــــ
ان کے د ا ا ا ا م بھی ی ی ی ـــــــــــــ”
Wednesday, 30 May 2012
آرائشِ خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو Aaraish-e-khyaal bhi ho dil kusha bhi ho
آرائشِ خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو
یہ کیا کہ روز ایک سا غم ایک سی امید
اس رنجِ بے خمار کی اب انتہا بھی ہو
اس رنجِ بے خمار کی اب انتہا بھی ہو
یہ کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
ٹوٹے کبھی تو خوابِ شب و روز کا طلسم
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو
دیوانگیء شوق کو یہ دھن ہے کہ ان دِنوں
گھر بھی ہو اور بے درودیوارسا بھی ہو
گھر بھی ہو اور بے درودیوارسا بھی ہو
جز دل کوئی مکان نہیں دہر میں جہاں
رہزن کا خوف بھی نہ رہے درکھلا بھی ہو
رہزن کا خوف بھی نہ رہے درکھلا بھی ہو
ہر ذرہ ایک محملِ عبرت ہے دشت کا
لیکن کسے دکھاوں کوئی دیکھتا بھی ہو
لیکن کسے دکھاوں کوئی دیکھتا بھی ہو
ہر شے پکارتی ہے پس پردہء سکوت
لیکن کسے سناوں کوئی ہم نوا بھی ہو
لیکن کسے سناوں کوئی ہم نوا بھی ہو
فرصت میں سن شگفتگیء غنچہ کی صدا
یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو
یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو
بیٹھا ہے ایک شخص مرے پاس دیر سے
کوئی بھلا سا ہو تو ہمیں دیکھتا بھی ہو
کوئی بھلا سا ہو تو ہمیں دیکھتا بھی ہو
بزم سخن بھی ہو سخنِ گرم کے لیے
طاوس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو
طاوس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو
Tuesday, 29 May 2012
میں لوگوں سے ملاقاتوں کے لمحے یاد رکھتا ہوں Mein logoon sey mulaqatoon key lamhay yaad rakhta hoon
میں لوگوں سے ملاقاتوں کے لمحے یاد رکھتا ہوں
میں باتیں بھول بھی جاؤں تو لہجے یاد رکھتا ہوں
سر محفل نگاہیں مجھ پے جن لوگوں کی پڑتی ہیں
نگاہوں کے حوالے سے وہ چہرے یاد رکھتا ہوں
ذرا سا ہٹ کے چلتا ہوں زمانے کی روایت سے
کے جن پے بوجھ میں ڈالو وہ کندھے یاد رکھتا ہوں
بات پھولوں کی سنا کرتے تھے Baat phoolon ki suna kartey they
بات پھولوں کی سنا کرتے تھے
ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے
مشعلیں لے کے تمھارے غم کی
ہم اندھیروں میں چلا کرتے تھے
اب کہاں ایسی طبیعت والے
چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے
ترک احساس محبت مشکل
ہاں مگر اہل وفا کرتے تھے
بکھری بکھری زلفوں والے
قافلے روک لیا کرتے تھے
آج گلشن میں شغف ساغر
شکوے باد صباء سے کرتے تھے
میری آنکھوں میں امنڈ آیا ہے دریا دل کا Meri Aankhoon mein umand aaya hai darya dil ka
میری آنکھوں میں امنڈ آیا ہے دریا دل کا
پھر کہیں ٹوٹ گیا ہو نا کنارا دل کا
بس محبت سے روایات ہے کہانی دل کی
چار حرفوں سے عبارت ہے فسانہ دل کا
سانس رکتی ہے تو پھر جان کا خیال آتا ہے
دل دھڑکتا ہے تو لگ جاتا ہے دھڑکا دل کا
اسی کوشش میں بہت عمر گنوا دی میں نے
پھر بھی پورا نا ہوا مجھ سے خسارا دل کا
میری پایاب تمنائیں بتاتی ہیں مجھے
سُوکھ جائے گا کچھ روز میں دریا دل کا
بدلی بدلی سی صدا دیتی ہے دھڑکن دل کی
حجر میں اور ہی ہو جاتا ہے لہجہ دل کا
کیوں نا اے دوست ابھی ترک آ محبت کر لیں
اس سے پہلے کے بدل جائے ارادہ دل کا
فکر دنیا میں میرے دل کو بھلانے والے
تیری دنیا سے زیادہ ہے اثاثہ دل کا
عشق کاٹے گا ابھی اور چاہتیں ساغر
عقل دیکھے گی ابھی اور تماشہ دل کا
Friday, 25 May 2012
وہ اوجھل میری نگاہوں سے کہاں رہتا ہے Wo ojhal meri nigahoon sey kahan rehta hai
وہ اوجھل میری نگاہوں سے کہاں رہتا ہے .
وہ اشک بن کر آنکھوں سے رواں رہتا ہے .
کسی لمحے تنہا ہونے نہیں دیتی اسکی یادیں .
میرے آنگن میں میلے کا سامان رہتا ہے .
ہر گھڑی دل کا دریچہ کھلا رکھتے ہیں .
ہر گھڑی اس کے آنے کا گمان رہتا ہے .
لوگ کہتے ہیں زخم بھر جاتے ہیں آخر .
زخم بھر جاتے ہیں لیکن نشان رہتا ہے .
وہ ملے تو اتنا بتا دینا اسکو .
تجھ بن تیرا پیار پریشان رہتا ہے . . . !
ذہنوں میں خیال جل رہے ہیں Zehnoon mein khyaal jal rahey hain
ذہنوں میں خیال جل رہے ہیں
سوچوں کے الاؤ سے لگے ہیں
دنیا کی گرفت میں ہیں سائے
ہم اپنا وجود ڈھونڈتے ہیں
اب بھوک سے کوئی کیا مریگا
منڈی میں ضمیر بک رہے ہیں
ماضی میں تو صرف دل دکھاتے تھے
اس دور میں ذہن بھی دکھتے ہیں
سر کٹاتے تھے کبھی شایان شان
اب لوگ زبان کاٹتے ہیں
ہم کیسے چھڑائیں شب سے دامن
دن نکلا تو سائے چل پڑے ہیں
لاشوں کے ہجوم میں بھی ہنس دیں
اب ایسے بھی حوصلے کسے ہیں
زخم بھر جاتے ہیں Zakham bhar jatey hain
زخم بھر جاتے ہیں
ذہنوں سے اُتَر جاتے ہیں
دن گزرتا ہے تو پھر شب بھی گزر جاتی ہے
پھول جس شاخ سے جھڑ جاتے ہیں
مر جاتے ہیں
چند ہی روز میں
اس شاخ پہ آئندہ کے پھولوں کے نگینے سے
ابھر آتے ہیں !
تیرے جانے سے میری ذات کے اندر
جو خلا گونجتا ہے
اک نا اک دن اسے بھر جانا ہے
اک نا اک روز تجھے
میری پھیلی ہوئی ، ترسی ہوئی بانہوں میں
پلٹ آنا ہے !
Thursday, 24 May 2012
انہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ Inhi khush gumanyoon mein kahin jaan say bhi na jao
انہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ
وہ جو چارہ گر نہیں ہے اسے زخم کیوں دکھاؤ
یہ اداسیوں کے موسم یونہی رائیگاں نہ جائیں
کسی یاد کو پکارو کسی درد کو جگاؤ
وہ کہانیاں ادھوری جو نہ ہو سکیں گی پوری
انہیں میں بھی کیوں سناؤں انہیں تم بھی کیوں سناؤ
یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں
جو گیا وہ پھر نہ آیا مری بات مان جاؤ
کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فراز کب تک
جو تمہیں بھلا چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ
یا رب غمِ ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا Ya rab gham-e-hijran mein itna to kia hota
یا رب غمِ ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دستِ دعا ہوتا
اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا، یا دل نہ دیا ہوتا
غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا
امید تو بندھ جاتی، تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے، وعدہ تو کیا ہوتا
ناکامِ تمنا دل، اس سوچ میں رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا، یوں ہوتا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دستِ دعا ہوتا
اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا، یا دل نہ دیا ہوتا
غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا
امید تو بندھ جاتی، تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے، وعدہ تو کیا ہوتا
ناکامِ تمنا دل، اس سوچ میں رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا، یوں ہوتا تو کیا ہوتا
مرا نہیں تو کسی اور کا بنے تو سہی Mera nahin to kisi owr ka baney to sahi
مرا نہیں تو کسی اور کا بنے تو سہی
کسی بھی طور سے وہ شخص خوش رہے تو سہی
پھر اس کے بعد بچھڑنے ہی کون دے گا اسے
کہیں دکھائی تو دے وہ کبھی ملے ہی سہی
کہاں کا زعم ترے سامنے انا کیسی
وقار سے ہی جھکے ہم مگر جھکے تو سہی
جو چپ رہا تو بسا لے گا نفرتیں دل میں
برا بھلا ہی کہے وہ مگر کہے تو سہی
کوئی تو ربط ہو اپنا پرانی قدروں سے
کسی کتاب کا نسخہ کہیں ملے تو سہی
دعائے خیر نہ مانگے کوئی کسی کیلئے
کسی کو دیکھ کے لیکن کوئی جلے تو سہی
جو روشنی نہیں ہوتی نہ ہو بلا سے مگر
سروں سے جبر کا سورج کبھی ڈھلے تو سہی
بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا Benaam sa yey dard theher kioon nahin jata
بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا
سب کچھ تو ہیں کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں نگاہیں
کیا بات ہے میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا
وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
...جو دور ہے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
میں اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا تماشا
جاتے ہیں جدھر سب میں ادھر کیوں نہیں جاتا
وہ نام جو عرصے سے نہ چہرہ نہ بدن ہے
وہ خواب اگر ہے تو بکھر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا
سب کچھ تو ہیں کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں نگاہیں
کیا بات ہے میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا
وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
...جو دور ہے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
میں اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا تماشا
جاتے ہیں جدھر سب میں ادھر کیوں نہیں جاتا
وہ نام جو عرصے سے نہ چہرہ نہ بدن ہے
وہ خواب اگر ہے تو بکھر کیوں نہیں جاتا
چھوڑو غم کی بات Chodo ghum ki baat
اب کے دیکھیں راہ تمھاری
بیت چلی ہے رات
چھوڑو
چھوڑو غم کی بات
تھم گئے آنسو
تھک گئیں اکھّیاں
گزر گئی برسات
بیت چلی ہے رات
چھوڑو
چھوڑو غم کی بات
کب سے آس لگی درشن کی
کوئی نہ جانے بات
کوئی نہ جانے بات
بیت چلی ہے رات
چھوڑو غم کی بات
تم آؤ تو من میں اترے
پھولوں کی بارات
بیت چلی ہے رات
اب کیا دیکھیں راہ تمھاری
بیت چلی ہےرات
Tuesday, 22 May 2012
بچھڑے ہوئے یاروں کی صدا کیوں نہیں آتی Bichday howey yaroon ki sada kioon nahin aati
بچھڑے ہوئے یاروں کی صدا کیوں نہیں آتی
اب روز زندان سے ہوا کیوں نہیں آتی
تو اب بھی سلامت ہے سفر میں تو اے مسافر
تیرے لئے ہونٹوں پر دعا کیوں نہیں آتی
ایک پیڑ کے سائے سے ہوا پوچھ رہی ہے
اب دشت میں مخلوق خدا کیوں نہیں آتی
چہروں پہ وہ سرسوں کی دھنک کیا ہوئی یارو
ہاتھوں سے وہ خوشبو حنا کیوں نہیں آتی
بستی میں سبھی لوگ سلامت ہیں تو محسن
آواز کوئی اپنے سوا کیوں نہیں آتی . . . . ؟
لے گا اور کیا ظالم امتحان شیشے کا Lay ga owr kia zalim imtehan sheeshey ka
لے گا اور کیا ظالم امتحان شیشے کا
انگلیوں پہ ہیرے کی، ہے نشان شیشے کا
پتھروں سے ڈرتا ہوں، آندھیوں سے ڈرتا ہوں
جب سے میں نے ڈالا ہے اک مکان شیشے کا
بے کراں سمندر میں مختصر جزیرہ ہے
کشتیاں ہیں پتھر کی، بادبان شیشے کا
اعتزاز یہ بستی سائے کو ترستی ہے
سارے چھت ہیں شیشے کے، سائبان شیشے کا
Monday, 21 May 2012
تو عکس ہے تو کبھی میری چشم تر میں اتر Neya hai sheher nayey Aasrey talash karoon
نیا ہے شہر ، نئے آسرے تلاش کروں
تو کھو گیا ہے ، کہاں اب تجھے تلاش کروں
تو عکس ہے تو کبھی میری چشم تر میں اُتَر
تیرے لیے میں کہاں آئینے تلاش کروں
غزل کہوں ، کبھی سادہ سے خط لکھوں اس کو
اداس دل کے لیے مشغلے تلاش کروں
میرے وجود سے شاید ملے سراغ اسکا
میں خود کو بھی تیرے واسطے تلاش کروں
میں چپ رہوں ، کبھی بے وجہ ہنس پڑوں محسن
اسے گنوا کے عجب حوصلے تلاش کروں
تو کھو گیا ہے ، کہاں اب تجھے تلاش کروں
تو عکس ہے تو کبھی میری چشم تر میں اُتَر
تیرے لیے میں کہاں آئینے تلاش کروں
غزل کہوں ، کبھی سادہ سے خط لکھوں اس کو
اداس دل کے لیے مشغلے تلاش کروں
میرے وجود سے شاید ملے سراغ اسکا
میں خود کو بھی تیرے واسطے تلاش کروں
میں چپ رہوں ، کبھی بے وجہ ہنس پڑوں محسن
اسے گنوا کے عجب حوصلے تلاش کروں
بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے Bichad key mujh sey kabhi tu ney yey bhi socha hai
بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
ادھورا چاند بھی کتنا اُداس لگتا ہے
یہ وصل کا لمحہ ہے اسے رائیگاں نا سمجھ
کے اس کے بعد وہی دوریوں کا سہارا ہے
کچھ اور دیر نا جھڑتا اداسیوں کا شجر
کسے خبر تیرے سائے میں کون بیٹھا ہے
یہ رکھ - رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے
میں کس طرح تجھے دیکھوں نظر جھجھکتی ہے
تیرا بدن ہے کے یہ آئینوں کا دریا ہے
اسے گنوا کے میں زندہ ہوں اسطرح محسن
کے جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتاہے
اسے گنوا کے میں زندہ ہوں اسطرح محسن
کے جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتاہے
در قفس سے پرے جب ہوا گزرتی ہے Dar-e-qafas sey parey jab saba guzarti hai
در قفس سے پرے جب صباء گزرتی ہے
کسے خبر کے اسیروں پر کیا گزرتی ہے
تعلق کبھی اس قدر نا ٹوٹے تھے
کے تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے
وہ اب ملے بھی تو ملتا ہے اس طرح جیسے
بجھے چراغوں کو چھو کر ہوا گزرتی ہے
فقیر کب کے گئے جنگلوں کی سمت مگر
گلی سے آج بھی ان کی صدا گزرتی ہے
یہ اہل ہجر کی بستی ہے ، احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں انتہا گزرتی ہے
بھنور سے بچ تو گئیں کشتیاں مگر اب کے
دلوں کی خیر کے موج بلا گزرتی ہے
نا پوچھ اپنی انا کی بغاوتیں محسن
در قبول سے بچ کر دعا گزرتی ہے
کسے خبر کے اسیروں پر کیا گزرتی ہے
تعلق کبھی اس قدر نا ٹوٹے تھے
کے تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے
وہ اب ملے بھی تو ملتا ہے اس طرح جیسے
بجھے چراغوں کو چھو کر ہوا گزرتی ہے
فقیر کب کے گئے جنگلوں کی سمت مگر
گلی سے آج بھی ان کی صدا گزرتی ہے
یہ اہل ہجر کی بستی ہے ، احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں انتہا گزرتی ہے
بھنور سے بچ تو گئیں کشتیاں مگر اب کے
دلوں کی خیر کے موج بلا گزرتی ہے
نا پوچھ اپنی انا کی بغاوتیں محسن
در قبول سے بچ کر دعا گزرتی ہے
شریک غم ہوا Shareek-e-gham hoa
شریک غم ہوا جو میرے چوٹ کھانے کے بعد
کھو دیا میں نے اسکو پانے کے بعد
مجھے ناز رہا فقط اس عمل پر سدا
اسنے مجھے اپنا مانا آزمانے کے بعد
سنا ہے تڑپ رہا ہے وہ میری وفا کے لیے
شاید پچھتا رہا ہے مجھے ٹھکرانے کے بعد
آج یوں سر راہ اسے نظر جا ملی محسن
وہ رو دیا مجھ سے نظر ملانے کے بعد
کس کس کو دوں یہ الزام بیوفائی کا
ہر کوئی چھوڑ گیا مجھے اپنانے کے بعد
عجیب خوف مسلط تھا کل حویلی پر Ajeeb khowf musalat tha kal khawaili par
عجیب خوف مسلط تھا کل حویلی پر
ہوا چراغ جلاتی رہی ہتھیلی پر
سنے گا کون مگر احتجاج خوشبو کا
کے سانپ زہر اُگلتا رہا چنبیلی پر
شب فراق میری آنکھ کو تھکن سے بچا
کے نیند وار نا کر دے تیری سہیلی پر
وہ بے وفا تھا تو پھر اتنا مہربان کیوں تھا
بچھڑ کے اس سے میں سوچوں اسی پہیلی پر
جلا نا گھر کا اندھیرا چراغ سے محسن
ستم نا کر یوں میری جان ! اپنے بیلی پر .
ہر سمت حجر کے طوفان ہیں محسن Har simat hijer key toofan hain muhsin
ہر سمت غم حجر کے طوفان ہیں محسن
مت پوچھ کے ہم کتنے پریشان ہیں محسن
ہر چہرہ نظر آتا ہے تصویر کی صورت
ہم شہر کے لوگوں سے بھی انجان ہیں محسن
جس شہر محبت نے ہمیں لوٹ لیا ہے
اس شہر سے اب کوچ کے امکان ہیں محسن
کشتی ابھی امید کی ڈوبی تو نہیں ہے
پھر کیوں تیری آنکھوں میں یہ طوفان ہیں محسن .
مرحلے شوق کے Marhalay showq key
مرحلے شوق کے دشوار ہوا کرتے ہیں
سائے بھی راہ کی دیوار ہوا کرتے ہیں
وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں
وہ عدالت میں گنہگار ہوا کرتے ہیں
صرف ہاتھوں کو نا دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خودار ہوا کرتے ہیں
وہ جو پتھر یونہی رستے میں پڑے رہتے ہیں
ان کے سینے میں بھی شاہکا ر ہوا کرتے ہیں
صبح کی پہلی کرن جن کو رلا دیتی ہے
وہ ستاروں کے ازادار ہوا کرتے ہیں
جن کی آنکھوں میں صدا پیار کے صحرا چمکیں
در حقیقت وہی فنکار ہوا کرتے ہیں
شرم آتی ہے دشمن کسے سمجھیں محسن
دشمنی کے بھی کچھ معیار ہوا کرتے ہیں . . . !
ہم انا مست تہی دست بہت ہیں محسن Aaj gum sum hai jo barbad jazeeroon jaisi
آج گم سم ہے جو برباد جزیروں جیسی ،
اس کی آنکھوں میں چمک تھی کبھی ہیروں جیسی
کتنے مغرور پہاڑوں کے بدن چاک ہوئے ،
تیز کرنوں کی جو بارش ہوئی تیروں جیسی
جس کی یادوں سے خیالوں کے خزانے دیکھے ،
اسکی صورت بھی لگی آج فقیروں جیسی
چاہتیں لب پہ مچلتی ہوئی لڑکی کی طرح ،
حسرتیں آنکھ میں زندان کے اسیروں جیسی
ہم انا مست ، تہی دست بہت ہیں محسن ،
یہ الگ بات کے عادت ہے امیروں جیسی . . . !
بہار رَت میں اجاڑ راستے Bahar rut mein ujaad rastey
بہار رُت میں اجاڑ راستے ،
تکا کرو گے تو رو پڑو گے …
کسی سے ملنے کو جب بھی محسن ،
سجا کرو گے تو رو پڑو گے … .
تمھارے وعدوں نے یار مجھ کو ،
تباہ کیا ہے کچھ اس طرح سے …
کے زندگی میں جو پھر کسی سے ،
دغا کرو گے تو رو پڑو گے …
میں جانتا ہوں میری محبت ،
اجاڑ دے گی تمہیں بھی ایسی …
کے چاند راتوں میں اب کسی سے ،
ملا کرو گے تو رو پڑو گے …
برستی بارش میں یاد رکھنا ،
تمہیں ستائیں گی میری آنکھیں …
کسی ولی کے مزار پر جب
دعا کرو گے تو رو پڑو گے . . . !
Sunday, 20 May 2012
چلو محسن محبت کی نئی بنیاد رکھتے ہیں Chalo mohsin mohabbat ki nai bunyaad rakhtey hain
چلو محسن محبت کی نئی بنیاد رکھتے ہیں ،
خود پابند رہتے ہے اسے آزاد رکھتے ہیں ،
ہمارے خون میں رب نے یہی تاثیر رکھی ہے ،
برائی بھول جاتے ہے اچھائی یاد رکھتے ہیں ،
محبت میں کہیں ہم سے گستاخی نا ہو جائے ،
ہم اپنا ہر قدم اس کے قدم کے بعد رکھتے ہیں . . .
دعاؤں میں کسی کا ہر گھڑی ہونا محبت ہے Duaoon mein kisi ka har ghadi hona mohabbat hai
دعاؤں میں کسی کا ہر گھڑی ہونا محبت ہے
کسی کی یاد کی چادر تلے سونا محبت ہے
کبھی رنگین راتوں میں اشک برسانا محبت ہے
کبھی بھلائے ہوئے کا لوٹ کر آنا محبت ہے
کسی کا خون بن کے جسم میں بہنا محبت ہے
اور اس جیون کا سب سے قیمتی گہنا . . .
محبت ہے
بات ہی عجب تھی Baat hi ajab thi
بات ہی عجب سی تھی
روح اگر نا دیتا تو
سانس دینی پڑتی تھی
دل اگر نا دیتا تو
جان دیتی دینی پڑتی تھی
پھر بتاؤ کیا کرتا ؟
روح کو بچانے میں
سانس وار دی میں نے
اور کیا کہوں دل کی
جان ہار دی میں نے !
Friday, 18 May 2012
میں نے اس طور سے تجھے چاہا Mein ney is tour sey chaha tujhey aksar janan
میں نے اس طور سے تجھے چاہا اکثر
جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے
جیسے خوشبو کو ہوا رنگ سے ہٹ کر چاھے
جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹی ہے
جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹتی ہے
جیسے بارش کی دعا آبلہ پا مانگتے ہیں
میرا ہر خواب میرے سچ کی گواہی دے گا
وسعت دید نے تجھ سے تیری کشش کی ہے
میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے . .
سنو تم نے کہا تھا نا Suno tum ney kaha tha nan
سنو تم نے کہا تھا نا ! !
مجھے جذبہ محبت سے کبھی جو تم پکارو گی
میں اس دن لوٹ آؤں گا ! !
تو دیکھو نا ! !
کئی لمحوں
کئی سالوں
کئی صدیوں
سے تیرا رستہ تکتی
یہ میری منتظر آنکھیں
میرے دل کی یہ دھڑکن اور سانسیں
بس تمہارا نام لیتی ہیں
وہی اک ورد کرتی ہیں
میری آنکھوں کے ساحل پر
تیری خواہش کی موجوں نے
بڑی ہلچل مچائی ہے
تیری تصویر ، سوکھے پھول اور تحفے !
تیری چاہت کی خوشبو میں
ابھی تک سانس لیتے ہیں
وہ سب رستے کے جن پر تم ہمارے ساتھ چلتے تھے
وہ سب رستے جہاں تیری ہنسی کے پھول کھلتے تھے
جہاں پیڑوں کی شاخوں پر
ہم اپنا نام لکھتے تھے
اُداسی سے بھرے منظر
تمھارے لوٹ کر آنے کی امیدیں دلاتے ہیں
سنو کچھ بھی نہیں بدلہ
تمھارے پاؤں کی آواز سننے کی
میرے کمرے کی بے ترتیب چیزیں منتظر ہیں
سنو ! ! !
تکمیل پاتی چاہتوں کو یوں ادھورہ تو نہیں چھوڑو
مجھے مت آزماؤ تم
چلو اب لوٹ آؤ تم . . . !
مجھے جذبہ محبت سے کبھی جو تم پکارو گی
میں اس دن لوٹ آؤں گا ! !
تو دیکھو نا ! !
کئی لمحوں
کئی سالوں
کئی صدیوں
سے تیرا رستہ تکتی
یہ میری منتظر آنکھیں
میرے دل کی یہ دھڑکن اور سانسیں
بس تمہارا نام لیتی ہیں
وہی اک ورد کرتی ہیں
میری آنکھوں کے ساحل پر
تیری خواہش کی موجوں نے
بڑی ہلچل مچائی ہے
تیری تصویر ، سوکھے پھول اور تحفے !
تیری چاہت کی خوشبو میں
ابھی تک سانس لیتے ہیں
وہ سب رستے کے جن پر تم ہمارے ساتھ چلتے تھے
وہ سب رستے جہاں تیری ہنسی کے پھول کھلتے تھے
جہاں پیڑوں کی شاخوں پر
ہم اپنا نام لکھتے تھے
اُداسی سے بھرے منظر
تمھارے لوٹ کر آنے کی امیدیں دلاتے ہیں
سنو کچھ بھی نہیں بدلہ
تمھارے پاؤں کی آواز سننے کی
میرے کمرے کی بے ترتیب چیزیں منتظر ہیں
سنو ! ! !
تکمیل پاتی چاہتوں کو یوں ادھورہ تو نہیں چھوڑو
مجھے مت آزماؤ تم
چلو اب لوٹ آؤ تم . . . !
میں نے دیکھا تھا ان دنوں مین اسے Mein ney daikha tha un dinoon mein usey
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اُسے …
جب وہ کھلتے گلاب جیسا تھا … .
اس کی پلکوں سے نیند چھنٹتی تھی …
اس کا لہجہ شراب جیسا تھا …
اس کی زلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا …
اس کا رخ مہتاب جیسا تھا
لوگ پڑتے تھے خد و خال اس کے
وہ ادب کی کتاب جیسا تھا …
بولتا تھا زبان خوشبو کی …
لوگ سنتے تھے دھڑکنوں میں اُسے …
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اُسے
ساری آنکھیں تھیں آئینے اس کے . .
سارے چہروں میں انتخاب تھا وہ !
سب سے گُھل مل کے اجنبی رہنا
ایک دریا نما سراب تھا وہ …
خواب یہ ہے وہ حقیقت تھا
یہ حقیقت ہی کوئی خواب تھا وہ …
دل کی دھرتی پے آسْمان کی طرح …
صورت سایہ و صحاب تھا وہ . .
اپنی نیندیں اس کی نظر ہوئیں
میں نے پایا تھا رتجگوں میں اسے
میں نا دیکھا تھا ان دنوں میں اسے
جب وہ ہنس ہنس کے بات کرتا تھا
دل کے خیمے میں رات کرتا تھا
رنگ پڑتے تھے آنچلوں میں اُسے
میں نے دیکھا ہے ان دنوں میں اسے
یہ مگر دیر کی کہانی ہے
یہ مگر دور کا فسانہ ہے
اس کے میرے ملاپ میں حائل
اب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے
اب یوں ہی کے حل اپنا بھی
داشتہ ہجراں کی شام جیسا ہے
کیا خبر ان دنوں من وہ کیسا ہے
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اُسے
جب وہ کھلتے گلاب جیسا تھا
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اُسے . . . !
جب وہ کھلتے گلاب جیسا تھا … .
اس کی پلکوں سے نیند چھنٹتی تھی …
اس کا لہجہ شراب جیسا تھا …
اس کی زلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا …
اس کا رخ مہتاب جیسا تھا
لوگ پڑتے تھے خد و خال اس کے
وہ ادب کی کتاب جیسا تھا …
بولتا تھا زبان خوشبو کی …
لوگ سنتے تھے دھڑکنوں میں اُسے …
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اُسے
ساری آنکھیں تھیں آئینے اس کے . .
سارے چہروں میں انتخاب تھا وہ !
سب سے گُھل مل کے اجنبی رہنا
ایک دریا نما سراب تھا وہ …
خواب یہ ہے وہ حقیقت تھا
یہ حقیقت ہی کوئی خواب تھا وہ …
دل کی دھرتی پے آسْمان کی طرح …
صورت سایہ و صحاب تھا وہ . .
اپنی نیندیں اس کی نظر ہوئیں
میں نے پایا تھا رتجگوں میں اسے
میں نا دیکھا تھا ان دنوں میں اسے
جب وہ ہنس ہنس کے بات کرتا تھا
دل کے خیمے میں رات کرتا تھا
رنگ پڑتے تھے آنچلوں میں اُسے
میں نے دیکھا ہے ان دنوں میں اسے
یہ مگر دیر کی کہانی ہے
یہ مگر دور کا فسانہ ہے
اس کے میرے ملاپ میں حائل
اب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے
اب یوں ہی کے حل اپنا بھی
داشتہ ہجراں کی شام جیسا ہے
کیا خبر ان دنوں من وہ کیسا ہے
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اُسے
جب وہ کھلتے گلاب جیسا تھا
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اُسے . . . !
دل بھی پریشاں ہے سرابوں سے نکل کر Seeney sey lipat ja merey khwaboon sey nikal kar
سینے سے لپٹ جا میرے خوابوں سے نکل کر
اک بار ملیں ہم بھی حجابوں سے نکل کر
کرنوں کی طرح بانٹ زمانے میں اجالا
خوشبو کی طرح پھیل گلابوں سے نکل کر
مے خانوں کی صورت ہیں تیری جھیل سی آنکھیں
ڈوبے ہیں جہاں لوگ شرابوں سے نکل کر
مجھ کو بھی گوارہ نہیں اب تجھ سے بچھڑنا
دل بھی پریشان سرابوں سے نکل کر
رہنے دو ابھی گردش دوراں میں ہے محسن
بہلے گی طبیعت نئے عذابوں سے نکل کر . . . !
اک بار ملیں ہم بھی حجابوں سے نکل کر
کرنوں کی طرح بانٹ زمانے میں اجالا
خوشبو کی طرح پھیل گلابوں سے نکل کر
مے خانوں کی صورت ہیں تیری جھیل سی آنکھیں
ڈوبے ہیں جہاں لوگ شرابوں سے نکل کر
مجھ کو بھی گوارہ نہیں اب تجھ سے بچھڑنا
دل بھی پریشان سرابوں سے نکل کر
رہنے دو ابھی گردش دوراں میں ہے محسن
بہلے گی طبیعت نئے عذابوں سے نکل کر . . . !
محبت جاگ جاتی ہے Mohabbat jaag jati hai
سنو اے چاند سی لڑکی
ابھی تم کہہ رہی تھی نا
تمہیں مجھ سے محبت ہو نہیں سکتی
چلو مانا کے یہ سچ ہے
مگر اے چاند سی لڑکی
مجھے اتنا بتاؤ تم
کے جب موسم بدلتے ہیں
گلوں میں رنگ بھرتے ہیں
تو پھر کیوں مضطرب ہو کر
اکیلے پن سے گھبرا کر
ہوا کو راز دیتی ہو
مجھے آواز دیتی ہو
سنو اے چاند سی لڑکی
تمھارے سامنے کوئی میرا جب نام لیتا ہے
تو پھر کیوں چونک جاتی ہو
چلو مانا تمہیں مجھ سے محبت ہو نہیں سکتی
مگر اتنا سمجھ لو تم
جہاں چاہت نہیں ہوتی
وہاں نفرت کے ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوتا
میرا دوا ہے چاہت میں
جہاں نفرت نہیں ہوتی
وہاں اکسر یہ دیکھا ہے
اگر کچھ وقت کٹ جائے
سمے کی دھول جھٹ جائے
تو وحشت بھاگ جاتی ہے
محبت جاگ جاتی ہے
محبت تول دی اس نے Mohabbat tol di us ney
میرے اصرار پر آخر ،
بہت مجبور ہو کر آج .
مجھے اپنی نگاہوں کی ،
اداسی سونپ دی اس نے .
بہت بے بس ،
بہت تنہا ،
بہت بکھری محبت کی .
حقیقت کھول دی اس نے .
خلش جو اس کے دل میں تھی ،
وہ اب میری امانت ہے .
شکستہ لہجے کی جتنی ،
تھکن تھی ،
بول دی اس نے .
میری خاطر مجھے اپنی ،
محبت کہہ نہیں پائی .
مگر آج اپنے آنسوؤں سے ،
محبت تول دی اس نے .
حقیقت کھول دی اس نے .
تم مشرق میں مغرب ہوں Tum mashraq mein maghrib hoon
چلو یہ فرض کرتے ہیں
کے تم مشرقِ ، میں مغرب ہوں
چلو یہ مان لیتے ہیں
بڑا لمبا سفر ہے یہ !
مگر یہ بھی حقیقت ہے تمہاری ذات کا سورج
بہت سا رستہ چل کر ، میری ہستی میں ڈوبے گا ! !
تم دوسری ہو Tum doosri ho
سنا ہے
زمین پر وہی لوگ ملتے ہیں …
جن کو
کبھی آسمانوں کے اس پار
راہوں کے میلے میں
ایک دوسرے کی محبت ملی ہو
مگر تم . . .
کے میرے لیے نفرتوں کے اندھیرے میں
ہنستی ہوئی روشنی ہو
لہو میں رچی
رگوں میں بسی ہو
ہمیشہ سکوت شب غم میں آواز جان بن کے
چاروں طرف گونجتی ہو
اگر آسمان کے اس پار
راہوں کے میلے میں بھی مل چکی ہو
تو پھر اس زمین پر
میری چاہتوں کے کھلے موسموں سے گریزاں
میری دھوپ چھاؤں سے
کیوں اجنبی ہو . . ؟ ؟ ؟
کتابوں میں لکھی ہوئی
اور کانوں سنی
ساری باتیں غلط ہیں . . . ؟ ؟ ؟
کے تم دوسری ہو . . . ؟ ؟
چند لمحوں کے لئے اپنی نظر دے جانا Tum na Aao mujhey meri khabar day jana
تم نا آؤ مجھے میری خبر دے جانا
ڈھونڈھ کر مجھ کو کہیں سے میرے گھر دے جانا
بے وفائی کا تمہاری مجھے دینا ہے جواب
چند لمحوں کے لیے اپنی نظر دے جانا
ان اندھیروں میں مجھے بے تو سفر کرنا ہے
میری راتوں کو بے امید سحر دے جانا
پار اُتَرْنا ہے مجھے ٹوٹی ہوئے کشتی پر
تم اگر چاہو تو دریا کو بھنور دے جانا
منزلوں کا تو کوئی شوق نہیں ہے مجھ کو
چلتے رہنے کے لیے رہگزر دے جانا . . . !
پر آسائش غم کا شکریہ Pur aasaiash gham ka shukria
پرآسائش غم کا شکریہ ، کیا تجھے آگہی نہیں
تیرے بغیر زندگی درد ہے ، زندگی نہیں
دور تھا کے گزر گیا ، نشہ تھا ایک اُتَر گیا
اب وہ مقام ہے جہاں شکوہ بیرخی نہیں
تیرے سوا کروں پسند کیا تیری کائنات میں
دونوں جہاں کی نعمتیں ، قیمت بندگی نہیں
لاکھ زمانہ ظلم ڈھائے ، وقت نا وہ خدا دکھائے
جب مجھے ہو یقین کے تو حاصل زندگی نہیں
دل کی شگفتگی کے ساتھ راحت مےکدہ گئی
فرصت مہ کشی تو ہے ، حسرت مہ کشی گئی
زخم پے زخم کھاکے جی ، اپنے لہو کے گھونٹ پی
آہ نا کر ، لبوں کو سی ، عشق ہے دل لگی نہیں
دیکھ کے خشک و زرد پھول ، دل ہے کچھ اس طرح ملول
جیسے تیری خزاں کے بعد ، دور بہار ہی نہیں
یوں نا مل مجھ سے خفا ہو جیسے Yun nan mil mujh sey khafa ho jaisey
یوں نا مل مجھ سے خفا ہو جیسے
ساتھ چل موج صباء ہو جیسے
لوگ یوں دیکھ کر ہنس دیتے ہیں
تو مجھے بھول گیا ہو جیسے
عشق کو شرک کی حد تک نا بڑھا
یوں نا مل ہم سے خدا ہو جیسے
موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ
مجھ پے احسان کیا ہو جیسے
ایسے انجان بنے بیٹھے ہو
تم کو کچھ بھی نا پتہ ہو جیسے
ہچکیاں رات کو آتی ہی رہیں
تو نے پھر یاد کیا ہو جیسے
زندگی بیت رہی ہے " دانش "
ایک بے جرم سزا ہو جیسے
اب کے یوں دل کو سزا دی ہم نے Ab key yun dil ko saza di hum ney
اب کے یوں دل کو سزا دی ہم نے
اس کی ہر بات بھلا دی ہم نے
ایک ، ایک پھول بہت یاد آیا
شاخ گل جب وہ جلا دی ہم نے
آج تک جس پے وہ شرماتے ہیں
بات وہ کب کی بھلا دی ہم نے
شہر جہاں راکھ سے آباد ہوا
آگ جب دل کی بجھا دی ہم نے
آج پھر یاد بہت آیا وہ
آج پھر اس کو دعا دی ہم نے
کوئی تو بات ہے اس میں فیض
ہر خوشی جس پے لٹا دی ہم نے
اس کی ہر بات بھلا دی ہم نے
ایک ، ایک پھول بہت یاد آیا
شاخ گل جب وہ جلا دی ہم نے
آج تک جس پے وہ شرماتے ہیں
بات وہ کب کی بھلا دی ہم نے
شہر جہاں راکھ سے آباد ہوا
آگ جب دل کی بجھا دی ہم نے
آج پھر یاد بہت آیا وہ
آج پھر اس کو دعا دی ہم نے
کوئی تو بات ہے اس میں فیض
ہر خوشی جس پے لٹا دی ہم نے
زندگی کو نہ بنا لیں وہ سزا میرے بعد Zindgi ko nan bana lein wo saza merey baad
زندگی کو نہ بنا لیں وہ سزا میرے بعد
حوصلہ دینا اُنہیں میرے خدا میرے بعد
ہاتھ اُٹھتے ھوئے اُن کے نہ کوئی دیکھے گا
کس کے آنے کی کریں گے وہ دُعا میرے بعد
کون گھونگھٹ کو اُٹھا ئے گا ستم گر کہ کر
اور پھر کس سے کریں گے وہ حیاء میرے بعد
پھر زمانے میںمحبت کی نہ پُر سش ھو گی
روئے گی سسکیاں لے کے وفا میرے بعد
وہ جو کہتا تھا کہ ناصر کہ لیے جیتا ھوں
اُس کا کیا جانیے کیا حال ھوا میرے بعد
حوصلہ دینا اُنہیں میرے خدا میرے بعد
ہاتھ اُٹھتے ھوئے اُن کے نہ کوئی دیکھے گا
کس کے آنے کی کریں گے وہ دُعا میرے بعد
کون گھونگھٹ کو اُٹھا ئے گا ستم گر کہ کر
اور پھر کس سے کریں گے وہ حیاء میرے بعد
پھر زمانے میںمحبت کی نہ پُر سش ھو گی
روئے گی سسکیاں لے کے وفا میرے بعد
وہ جو کہتا تھا کہ ناصر کہ لیے جیتا ھوں
اُس کا کیا جانیے کیا حال ھوا میرے بعد
آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد Aa key sajaada nasheen qais hoa merey baad
آ کے سجّادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد
چاک کرنا ہے اسی غم سے گریبانِ کفن
کون کھولے گا ترے بندِ قبا میرے بعد
وہ ہوا خواہِ چمن ہوں کہ چمن میں ہر صبح
پہلے میں جاتا تھا اور بادِ صبا میرے بعد
منہ پہ رکھ دامنِ گل روئیں گے مُرغانِ چمن
ہر روِش خاک اڑائے گی صبا میرے بعد
تیز رکھنا سرِ ہر خار کو اے دشتِ جنوں
شاید آ جائے کوئی آبلہ پا میرے بعد
تہِ شمشیر یہی سوچ ہے مقتل میں مجھے
دیکھیے اب کسے لاتی ہے قضا میرے بعد
بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا وہ میر
یاد آئی مرے عیسٰی کو دوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد
چاک کرنا ہے اسی غم سے گریبانِ کفن
کون کھولے گا ترے بندِ قبا میرے بعد
وہ ہوا خواہِ چمن ہوں کہ چمن میں ہر صبح
پہلے میں جاتا تھا اور بادِ صبا میرے بعد
منہ پہ رکھ دامنِ گل روئیں گے مُرغانِ چمن
ہر روِش خاک اڑائے گی صبا میرے بعد
تیز رکھنا سرِ ہر خار کو اے دشتِ جنوں
شاید آ جائے کوئی آبلہ پا میرے بعد
تہِ شمشیر یہی سوچ ہے مقتل میں مجھے
دیکھیے اب کسے لاتی ہے قضا میرے بعد
بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا وہ میر
یاد آئی مرے عیسٰی کو دوا میرے بعد
Subscribe to:
Posts (Atom)