دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
ہمیں یوسف کا سفر یاد آیا
ہمیں یوسف کا سفر یاد آیا
میں نے تلوار پہ سر رکھا تھا
یعنی تلوار سے سر یاد آیا
یعنی تلوار سے سر یاد آیا
وہ تری کم سخنی تھی کہ مجھے
بات کرنے کا ہنر یاد آیا
بات کرنے کا ہنر یاد آیا
اے زمانے مرے پہلو میں ٹھہر
پھر سلامِ پسِ در یاد آیا
پھر سلامِ پسِ در یاد آیا
کسے اڑتے ہوئے دیکھا کہ تمہیں
اپنا ٹوٹا ہوا پر یاد آیا
اپنا ٹوٹا ہوا پر یاد آیا
آج میں خود سے ملا ہوں طالب
آج بھولا ہوا گھر یاد آیا
آج بھولا ہوا گھر یاد آیا
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔