وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
بس ایک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے
بس ایک زخمِ نظارہ، حصہ مرا
بہاریں تری، آشیانے ترے
فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے
فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری، بادہ خانے ترے
ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے، سب زمانے ترے
عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے
عبدالحمید عدم
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔