مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا
داغ ہوں رشک محبت سے کہ اتنا بے تاب
کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا
جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا
جو ستم دیدہ رہا جا کے سو مر کے نکلا
دل کی آبادی کی اس حد ھے خرابی کہ نہ پوچھ
جانا جاتا ھے کہ اس راہ سے لشکر نکلا
اشک تر قطرہ خوں لخت جگر پارہ دل
ایک سے ایک عدد آنکھ سے بہتر نکلا
ہم نے جانا تھا لکھے گا کوئی حرف اے میر
پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا
داغ ہوں رشک محبت سے کہ اتنا بے تاب
کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا
جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا
جو ستم دیدہ رہا جا کے سو مر کے نکلا
دل کی آبادی کی اس حد ھے خرابی کہ نہ پوچھ
جانا جاتا ھے کہ اس راہ سے لشکر نکلا
اشک تر قطرہ خوں لخت جگر پارہ دل
ایک سے ایک عدد آنکھ سے بہتر نکلا
ہم نے جانا تھا لکھے گا کوئی حرف اے میر
پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔