Pages

Subscribe:

Thursday 21 June 2012

اب کے یوں بھی تیری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے Ab key yun bhi teri zulfoon ki shikan tooti hai

اب کے یو ں بھی تری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے
رنگ پھوٹے ، کہیں خوشبو کی رسن ٹوٹی ہے
موت آئی ہے کہ تسکین کی ساعت آئی
سانس ٹوٹی ہے کہ صدیوں کی تھکن ٹوٹی ہے
سینۂ گل جہاں نکہت بھی گراں ٹھہری تھی
تیر بن کر وہاں سورج کی کرن ٹوٹی ہے
دِل شکسہ تو کئی بار ہوئے تھے لیکن
اب کے یوں ہے کہ ہر اک شاخِ بدن ٹوٹی ہے
اتنی بے ربط محبت بھی کہاں تھی اپنی
درمیاں سے کہیں زنجیرِ سخن ٹوٹی ہے
اک شعلہ کہ تہِ خیمۂ جاں لپکا تھا
ایک بجلی کہ سرِ صحنِ چمن ٹوٹی ہے
سلسلہ تجھ سے بچھڑنے پہ کہاں ختم ہوا
اک زمانے سے رہ و رسم کہن ٹوٹی ہے
مرے یاروں کے تبسم کی کرن مقتل میں
نوکِ نیزہ کی طرح زیرِ کفن ٹوٹی ہے
ریزہ ریزہ میں بکھرتا گیا ہر سو محسن
شیشہ شیشہ مری سنگینیء فن ٹوٹی ہے

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔