Pages

Subscribe:

Tuesday 26 June 2012

دنیا کا کچھ برا بھی تماشا نہیں رہا Dunya ka kuch bura bhi tamasha nahin raha

دنیا کا کچھ برا بھی تماشا نہیں رہا
دل چاہتا تھا جس طرح ویسا نہیں رہا
تم سے ملے بھی ہم تو جدائی کے موڑ پر
کشتی ہوئی نصیب تو دریا نہیں رہا
کہتے تھے ایک پل نہ جیئیں گے ترے بغیر
ہم دونوں رہ گئے ہیں وہ وعدہ نہیں رہا
کاٹے ہیں اس طرح سے ترے بغیر روز و شب
میں سانس لے رہا تھا پر زندہ نہیں رہا
آنکھیں بھی دیکھ دیکھ کے خواب آ گئی ہیں تنگ
دل میں بھی اب وہ شوق، وہ لپکا نہیں رہا
کیسے ملائیں آنکھ کسی آئنے سے ہم
امجد ہمارے پاس تو چہرہ نہیں رہا
امجد اسلام امجد

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔