Pages

Subscribe:

Saturday 15 September 2012

جان پر کھیل کر ہم وعدہ شکن تک پہنچے (منزل و محمِل) Jaan par khel kar hum wada


جان پر کھیل کر ہم وعدہ شکن تک پہنچے
اس کے احسان سے پھر دارورسن تک پہنچے
زندگی موجِ ہوا ہے کہ چلے تو نہ رُکے
لالہ زاروں سے گذرتی ہوئی بَن تک پہنچے
روز بن جاتی ہیں اس ضد میں نئی دیواریں
نالہ بھی اہل قفس کا نہ چمن تک پہنچے
بات اُس چہرے کی محفل میں اگر چھڑ جائے
چاند تاروں سے چلے اور چمن تک پہنچے
اب مسرت کے تصور سے بھی جی ڈرتا ہے
ہم بھی کس مرحلہء رنج و محن تک پہنچے
جان سے جاتے ہیں ہم راہِ وفا پر چل کر
یہ مگر بات نہ اُس غنچہ دہن تک پہنچے
برق کی زد پر تبسم ہیں سیاہ بخت ہمِیں
حوصلہ ہے تو ذرا گورے بدن تک پہنچے

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔