Pages

Subscribe:

Saturday 4 August 2012

انشاء جی اُٹھو Insha jee utho

انشإ جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا
اس دل کے دریدہ دامن میں دیکھو تو سہی،سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے،اس جھولی کا پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا، زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانہ کیا
اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں اور چھو نہ سکیں
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں، وہ دولت کیا خزانہ کیا
پھر ہجر کی لمبی رات میں سنجوک کی ہے تو ایک گھڑی
جو دل میں ہے لب پر آنے دو شرمانہ کیا گھبرانا کیا!!
اس روز کو ان کو دیکھا ہے اب خوان کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی کیا افسانہ کیا!!
اس کو بھی جلا دہکتے ہوئے من، اک شعلہ آگ بھبھولا بن
یوں آنسو میں بہہ جانا کیا، یوں مٹی میں مل جانا کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں،کیوں بن میں نہ جا بس رام کریں
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا!!

2 comments:

م بلال م : -

جناب طاہر صاحب مجھے یہ معلوم کرنا تھا کہ درج ذیل بند کیا واقعی انشاء جی کا ہے؟ اس کے علاوہ یہ مکمل لگائیں مجھے بہت پسند ہے۔

جہاں سچے رشتے یاریوں کے
جہاں گھونگھٹ زیور ناریوں کے
جہاں جھرنے کومل سکھ والے
جہاں ساز بجیں بن تاروں کے
چل انشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سکھ کی چھاؤں میں

Tahir : -

محترم بلال صاحب عزت افزائی کا شکریہ کہ شاعر کے بارے میں آپ نے مجھ سے رائے مانگی ورنہ ہم کیا اور ہماری اوقات کیا۔ بہرحال مکمل نظم لگا دی ہے۔ آئندہ بھی اپنی قیمتی رائے سے بندے کو مستفید ہونے کا موقع دیجئے گا

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔