رہ گیا جانے کہاں قافلہ قندیلوں کا
رات انبار اٹھا لائی ہے تاویلوں کا
رات انبار اٹھا لائی ہے تاویلوں کا
بن گئے پاﺅں کی زنجیر پہاڑی رستے
چند قدموں کی مسافت تھی سفر میلوں کا
چند قدموں کی مسافت تھی سفر میلوں کا
اب جو ریگ متلاطم میں گھرے بیٹھے ہیں
ہم نے صحراﺅں سے پوچھا تھا پتا جھیلوں کا
ہم نے صحراﺅں سے پوچھا تھا پتا جھیلوں کا
ہاتھ رہ رہ کے دعاﺅں کے لئے اٹھتے تھے
آسماں پر تھا نشان تک نہ ابابیلوں کا
آسماں پر تھا نشان تک نہ ابابیلوں کا
پی گیا کون چھلکتے ہوئے امکاں یوسف
کیوں گھروں پر بھی گماں ہونے لگا ٹیلوں کا
کیوں گھروں پر بھی گماں ہونے لگا ٹیلوں کا
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔