ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئ ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
اے دل کسے نصیب یہ توفیقِ اضطراب
ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی
تیرے کرم سے اے اَلمِ حسن آفریں
دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی
جوشِ جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ
اشکوں میں ڈھل گئ تری صورت کبھی کبھی
تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا
گزری ہے مجھ پہ یہ بھی قیامت کبھی کبھی
کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمھارا خیال تھا
یوں بھی گزر گئ شبِ فرقت کبھی کبھی
اے دوست ہم نے ترکِ محبّت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔