ترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیں
مگر یہ لوگ پاگل ہو گۓ ہیں
بہاریں لے کے آۓ تھے جہاں تم
وہ گھر سنسان جنگل ہو گۓ ہیں
یہاں تک بڑھ گۓ آلامِ ہستی
کہ دل کے حوصلے شل ہو گۓ ہیں
کہاں تک لاۓ ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گۓ ہیں
نگاہِ یاس کو نیند آ رہی ہے
مژہ پر اشک بوجھل ہو گۓ ہیں
انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گۓ ہیں
جنھیں ہک دیکھ کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گۓ ہیں
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔