Pages

Subscribe:

Friday 26 April 2013

اس کشمکشِ ہستی میں کوئی راحت نہ ملی جو غم نہ ہوئی Iss khashmakash e hasti mein koi rahat


اس کشمکشِ ہستی میں کوئی راحت نہ ملی جو غم نہ ہوئی
تدبیر کا حاصل کیا کہیئے تقدیر کی گردش کم نہ ہوئی

اللہ رے سکونِ قلب اس کا، دل جس نے لاکھوں توڑ دئیے
جس زلف نے دنیا برہم کی وہ آپ کبھی برہم نہ ہوئی

غم راز ہے اُن کی تجلی کا جو عالم بن کر عام ہُوا
دل نام ہے اُن کی تجلی کا جو راز رہی عالم نہ ہوئی

یہ دل کی ویرانی ہی عجب ہے، وہ بھی آخر کیا کرتے
جب دل میں ان کے رہتے بستے یہ ویرانی کم نہ ہوئی

انسان کی ساری ہستی کا مقصود ہے فانی ایک نظر
یعنی وہ نظر جو دل میں اُتر کر زخم بنی، مرہم نہ ہوئی

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔