Pages

Subscribe:

Wednesday 26 December 2012

تم نے دھرتی کے ماتھے پہ افشاں چُنی Tum ney dharti key mathey pay afshan chunni


تم نے دھرتی کے ماتھے پہ افشاں چُنی
خود اندھیری فضاؤں میں پلتے رہے
تم نے دنیا کے خوابوں کی جنت بُنی
خود فلاکت کے دوزخ میں جلتے رہے
تم نے انسان کے دل کی دھڑکن سُنی
اور خود عمر بھر خوں اُگلتے رہے

جنگ کی آگ دنیا میں جب بھی جلی
امن کی لوریاں تم سناتے رہے
جب بھی تخریب کی تُند آندھی چلی
روشنی کے نشاں تم دکھاتے رہے
تم سے انساں کی تہذیب پھولی پھلی
تم مگر ظلم کے تیر کھاتے رہے


تم نے شہکار خونِ جگر سے سجائے
اور اس کے عوض ہاتھ کٹوا دیئے
تم نے دنیا کو امرت کے چشمے دکھائے
اور خود زہرِ قاتل کے پیالے پیے
تم مرے تو زمانے کے ہاتھوں سے وائے
تم جیے تو زمانے کی خاطر جیے

تم پیمبر نہ تھے عرش کے مدعی
تم نے دنیا سے دنیا کی باتیں کہیں
تم نے ذروں کو تاروں کی تنویر دی
تم سے گو اپنی آنکھیں بھی چھینی گئیں
تم نے دُکھتے دلوں کی مسیحائی کی
اور زمانے سے تم کو صلیبیں ملیں

کاخ و دربار سے کوچۂ دار تک
کل جو تھے آج بھی ہیں وہی سلسلے
جیتے جی تو نہ پائی چمن کی مہک
موت کے بعد پھولوں کے مرقد ملے
اے مسیحاؤ! یہ خود کشی کب تلک
ہیں زمیں سے فلک تک بڑے فاصلے

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔