Pages

Subscribe:

Monday 15 July 2013

موسمِ گل کے لیے بارِ گراں چھوڑ گئی Mosem e gul key lieyey bar e gran chod gai

موسمِ گل کے لیے بارِ گراں چھوڑ گئی
زرد پتّے جو گلستاں میں خزاں چھوڑ گئی

مجھ کو تنہائی کے احساس سے ڈر لگتا ہے
تو مجھے عمرِ رواں جانے کہاں چھوڑ گئی

ترا احسان ہے اے فصلِ بہاراں مجھ پر
جاتے جاتے مرے ہونٹوں پہ فغاں چھوڑ گئی

یہ شکایت ہے عبث ہم سے تری گردشِ وقت
دیکھ ہم اب بھی وہیں ہیں، تو جہاں چھوڑ گئی

شمع روشن تھی تو محفل میں بھی رونق تھی صباؔ
گل ہوئی شمع تو محفل میں دھواں چھوڑ گئی

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔