Pages

Subscribe:

Monday 25 February 2013

حضورِ یار میں حرف التجا کے رکھے تھے Hazoor e yaar mein harf iltja key rakhey they

حضورِ یار میں حرف التجا کے رکھے تھے
چراغ سامنے جیسے ہَوا کے رکھے تھے

بس ایک اشکِ ندامت نے صاف کر ڈالے
وہ سب حساب جو ہم نے اُٹھا کے رکھے تھے

سمومِ وقت نے لہجے کو زخم زخم کیا
وگرنہ ہم نے قرینے صَبا کے رکھے تھے

بکھر رہے تھے سو ہم نے اُٹھا لیے خود ہی
گلاب جو تری خاطر سجا کے رکھے تھے

ہوا کے پہلے ہی جھونکے سے ہار مان گئے
وہی چراغ جو ہم نے بچا کے رکھے تھے

تمہی نے پاؤں نہ رکھا وگرنہ وصل کی شب
زمیں پہ ہم نے ستارے بچھا کے رکھے تھے!

مٹا سکی نہ انہیں روز و شب کی بارش بھی
دلوں پہ نقش جو رنگِ حنا کے رکھے تھے

حصولِ منزلِ دُنیا کُچھ ایسا کام نہ تھا
مگر جو راہ میں پتھر اَنا کے رکھے تھ

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔