Thursday, 28 February 2013
Wednesday, 27 February 2013
ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے Hum musaafir yunhin masroof e safar
ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے
کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے
جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے
نعمتِ زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں، مر جائیں گے
شاید اپنا بھی کوئی بیت حُدی خواں بن کر
ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں گے
فیض آتے ہیں رہِ عشق میں جو سخت مقام
آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے
Monday, 25 February 2013
حضورِ یار میں حرف التجا کے رکھے تھے Hazoor e yaar mein harf iltja key rakhey they
حضورِ یار میں حرف التجا کے رکھے تھے
چراغ سامنے جیسے ہَوا کے رکھے تھے
بس ایک اشکِ ندامت نے صاف کر ڈالے
وہ سب حساب جو ہم نے اُٹھا کے رکھے تھے
سمومِ وقت نے لہجے کو زخم زخم کیا
وگرنہ ہم نے قرینے صَبا کے رکھے تھے
بکھر رہے تھے سو ہم نے اُٹھا لیے خود ہی
گلاب جو تری خاطر سجا کے رکھے تھے
ہوا کے پہلے ہی جھونکے سے ہار مان گئے
وہی چراغ جو ہم نے بچا کے رکھے تھے
تمہی نے پاؤں نہ رکھا وگرنہ وصل کی شب
زمیں پہ ہم نے ستارے بچھا کے رکھے تھے!
مٹا سکی نہ انہیں روز و شب کی بارش بھی
دلوں پہ نقش جو رنگِ حنا کے رکھے تھے
حصولِ منزلِ دُنیا کُچھ ایسا کام نہ تھا
مگر جو راہ میں پتھر اَنا کے رکھے تھ
چراغ سامنے جیسے ہَوا کے رکھے تھے
بس ایک اشکِ ندامت نے صاف کر ڈالے
وہ سب حساب جو ہم نے اُٹھا کے رکھے تھے
سمومِ وقت نے لہجے کو زخم زخم کیا
وگرنہ ہم نے قرینے صَبا کے رکھے تھے
بکھر رہے تھے سو ہم نے اُٹھا لیے خود ہی
گلاب جو تری خاطر سجا کے رکھے تھے
ہوا کے پہلے ہی جھونکے سے ہار مان گئے
وہی چراغ جو ہم نے بچا کے رکھے تھے
تمہی نے پاؤں نہ رکھا وگرنہ وصل کی شب
زمیں پہ ہم نے ستارے بچھا کے رکھے تھے!
مٹا سکی نہ انہیں روز و شب کی بارش بھی
دلوں پہ نقش جو رنگِ حنا کے رکھے تھے
حصولِ منزلِ دُنیا کُچھ ایسا کام نہ تھا
مگر جو راہ میں پتھر اَنا کے رکھے تھ
Monday, 18 February 2013
آندھی چلی تو گرد سے ہر چیز اَٹ گئی Aandhi chali to gard say har cheez at gai
آندھی چلی تو گرد سے ہر چیز اَٹ گئی
دیوار سے لگی تری تصویر پھٹ گئی
لمحوں کی تیز دوڑ میں، میں بھی شریک تھا
میں تھک کے رک گیا تو مری عمر گھٹ گئی
اس زندگی کی جنگ میں ہر اک محاذ پر
میرے مقابلے میں مری ذات ڈٹ گئی
سورج کی برچھیوں سے مرا جسم چھد گیا
زخموں کی سولیوں پہ مری رات کٹ گئی
احساس کی کرن سے لہو گرم ہو گیا
سوچوں کے دائروں میں تری یاد بٹ گئی
دیوار سے لگی تری تصویر پھٹ گئی
لمحوں کی تیز دوڑ میں، میں بھی شریک تھا
میں تھک کے رک گیا تو مری عمر گھٹ گئی
اس زندگی کی جنگ میں ہر اک محاذ پر
میرے مقابلے میں مری ذات ڈٹ گئی
سورج کی برچھیوں سے مرا جسم چھد گیا
زخموں کی سولیوں پہ مری رات کٹ گئی
احساس کی کرن سے لہو گرم ہو گیا
سوچوں کے دائروں میں تری یاد بٹ گئی
Wednesday, 13 February 2013
غمِ زندگی تیرا شکریہ تیرے فیض ہی سے یہ حال ہے Gham e zindgi tera shukria terey faiz
غمِ زندگی تیرا شکریہ تیرے فیض ہی سے یہ حال ہے
وہی صبح و شام کی الجھنیں، وہی رات دن کا وبال ہے
نہ چمن میں بُوئے سمن رہی نہ ہی رنگِ لالہ و گل رہا
تو خفا خفا سا ہے واقعی کہ یہ صرف میرا خیال ہے
اسے کیسے زیست کہے کوئی گہے آہِ دل گہے چشمِ نم
وہی رات دن کی مصیبتیں وہی ماہ ہے وہی سال ہے
میں غموں سے ہوں جو یوں مطمئن تُو برا نہ مانے تو میں کہوں
تیرے حسن کا نہیں فیض کچھ، میری عاشقی کا کمال ہے
ہے یہ آگ کیسی لگی ہوئی میرے دل کو آج ہُوا ہے کیا
جو ہے غم تو ہے غمِ آرزو، اگر ہے تو فکرِ وصال ہے
کوئی کاش مجھ کو بتا سکے رہ و رسمِ عشق کی الجھنیں
وہ کہے تو بات پتے کی ہے میں کہوں تو خام خیال ہے
وہی صبح و شام کی الجھنیں، وہی رات دن کا وبال ہے
نہ چمن میں بُوئے سمن رہی نہ ہی رنگِ لالہ و گل رہا
تو خفا خفا سا ہے واقعی کہ یہ صرف میرا خیال ہے
اسے کیسے زیست کہے کوئی گہے آہِ دل گہے چشمِ نم
وہی رات دن کی مصیبتیں وہی ماہ ہے وہی سال ہے
میں غموں سے ہوں جو یوں مطمئن تُو برا نہ مانے تو میں کہوں
تیرے حسن کا نہیں فیض کچھ، میری عاشقی کا کمال ہے
ہے یہ آگ کیسی لگی ہوئی میرے دل کو آج ہُوا ہے کیا
جو ہے غم تو ہے غمِ آرزو، اگر ہے تو فکرِ وصال ہے
کوئی کاش مجھ کو بتا سکے رہ و رسمِ عشق کی الجھنیں
وہ کہے تو بات پتے کی ہے میں کہوں تو خام خیال ہے
Sunday, 3 February 2013
گلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی Gila hawa say nahin hai hawa to andhi thi
گلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی
مگر وہ برگ کہ ٹوٹے تو پھر ہرے نہ ہوئے
مگر وہ سر کہ جھکے اور پھر کھڑے نہ ہوئے
مگر وہ خواب کہ بکھرے تو بے نشاں ٹھہرے
مگر وہ ہاتھ کہ بچھڑے تو استخواں ٹھہرے
گلہ ہوا سے نہیں تُندیِ ہوا سے نہیں
ہنسی کے تیر چلاتی ہوئی فضا سے نہیں
عدو کے سنگ سے اغیار کی جفا سے نہیں
گلہ تو گرتے مکانوں کے بام و در سے ہے
گلہ تو اپنے بکھرتے ہوئے سفر سے ہے
ہوا کا کام تو چلنا ہے اس کو چلنا تھا
کوئی درخت گرے یا رہے اُسے کیا ہے
گلہ تو اہلِ چمن کے دل و نظر سے ہے
خزاں کی دھول میں لپٹے ہوئے شجر سے ہے
گلہ سحر سے نہیں رونقِ سحر سے ہے
مگر وہ برگ کہ ٹوٹے تو پھر ہرے نہ ہوئے
مگر وہ سر کہ جھکے اور پھر کھڑے نہ ہوئے
مگر وہ خواب کہ بکھرے تو بے نشاں ٹھہرے
مگر وہ ہاتھ کہ بچھڑے تو استخواں ٹھہرے
گلہ ہوا سے نہیں تُندیِ ہوا سے نہیں
ہنسی کے تیر چلاتی ہوئی فضا سے نہیں
عدو کے سنگ سے اغیار کی جفا سے نہیں
گلہ تو گرتے مکانوں کے بام و در سے ہے
گلہ تو اپنے بکھرتے ہوئے سفر سے ہے
ہوا کا کام تو چلنا ہے اس کو چلنا تھا
کوئی درخت گرے یا رہے اُسے کیا ہے
گلہ تو اہلِ چمن کے دل و نظر سے ہے
خزاں کی دھول میں لپٹے ہوئے شجر سے ہے
گلہ سحر سے نہیں رونقِ سحر سے ہے
Subscribe to:
Posts (Atom)