Pages

Subscribe:

Monday 14 August 2017

مرے بیٹے نے آنکھیں اک نئی دُنیا میں کھولی ہیں Meray baitey nein ankhein ik nai dunya mein kholi hain

مرے بیٹے نے آنکھیں اک نئی دُنیا میں کھولی ہیں
اُسے وہ خواب کیسے دوں
جنہیں تعبیر کرنے میں مری یہ عمر گزری ہے

مری تعظیم کی خاطر وہ ان کو لے تو لے شاید
مگر جو زندگی اُس کو ملی ہے، اُس کے دامن میں
ہمارے عہد کی قدریں تو کیا یادیں بھی کم کم ہیں
انوکھے پھول ہیں اُس کے نرالے اُس کے موسم ہیں
خود اپنی موج کی مستی میں بہنا چاہتا ہے وہ!
نئی دُنیا ، نئے منظر میں رہنا چاہتا ہے وہ

سمجھ میں کچھ نہیں آتا اُسے کیسے بتاؤں میں
زمیں پر آج تک جتنے بھی آدم زاد آئے ہیں
اسی مشکل سے گزرے ہیں
انہی رستوں میں اُلجھے ہیں
اسی منزل سے گزرے ہیں
ازل سے آج تک جتنے محبت کرنے والے ہیں
سبھی کی اک کہانی ہے
نئی لگتی تو ہے لیکن حقیقت میں پُرانی ہے

اُسے کیسے بتاؤں کہ میرے باپ کی باتیں
مجھے بھی ایک ایسے وقت کا احوال لگتی تھیں
جو اک بھولا فسانہ تھا
میں اُس کی جیب کے متروک سکوں کو کہاں رکھتا
کہ یہ میرا زمانہ تھا
نئے بازار تھے میرے ، کرنسی اور تھی میری
وہ بستی اور تھی میری
مگر پھر یہ کُھلا مجھ پر نیا کچھ بھی نہیں شاید
ازل سے ایک منظر ہے فقط آنکھیں بدلتی ہیں
مری نظروں کا دھوکہ تھا کہ یہ چیزیں بدلتی ہیں

اُسے کیسے بتاؤں میں
کہ یہ عرفان کا لمحہ ابھی تک اُس تک نہیں پہنچا
مگر جس وقت پہنچے گا
اُسے بھی اپنے بیٹے کو یہی قصہ سُنانے میں
یہی دُشواریاں ہوں گی
کہ وہ بھی تو کچھ اپنی بات کہنا چاہتا ہو گا
نئی دُنیا نئے منظر میں رہنا چاہتا ہو گا
بس اپنی ذات کی مستی میں بہنا چاہتا ہوگا


(امجد اسلام امجد)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔