Monday, 14 August 2017
مرے بیٹے نے آنکھیں اک نئی دُنیا میں کھولی ہیں Meray baitey nein ankhein ik nai dunya mein kholi hain
مرے بیٹے نے آنکھیں اک نئی دُنیا میں کھولی ہیں
Saturday, 12 August 2017
گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح Gayey mousam mein jo khiltey they gulaboon
گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے مرے خوابوں کی طرح
ساعت دید کہ عارض ہیں گلابی اب تک
اولیں لمحوں کے گلنار حجابوں کی طرح
وہ سمندر ہے تو پھر روح کو شاداب کرے
تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
شیلف میں رکھی ہوئی بند کتابوں کی طرح
کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک
گاہے گاہے ترے دلچسپ جوابوں کی طرح
ہجر کی شب مری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوش بو مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح
وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا Wo hum nahin jinhen sehna yey jabar Aa jata
وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا
تری جدائی میں کس طرح صبر آ جاتا
فصیلیں توڑ نہ دیتے جو اب کے اہل قفس
تو اور طرح کا اعلان جبر آ جاتا
وہ فاصلہ تھا دعا اور مستجابی میں
کہ دھوپ مانگنے جاتے تو ابر آ جاتا
وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا
وزیر و شاہ بھی خس خانوں سے نکل آتے
اگر گمان میں انگار قبر آ جاتا
Wednesday, 9 August 2017
ہَر شے ہے پُر ملال بڑی تیز دُھوپ ہے Har shey hai purmalal badi taiz dhoop hai
ہَر شے ہے پُر ملال بڑی تیز دُھوپ ہے
ہَر لب پہ ہے سوال بڑی تیز دُھوپ ہے
چکرا کے گِر نہ جاؤں میں اِس تیزُ دھوپ میں
مُجھ کو ذرا سنبھال بڑی تیز دُھوپ ہے
دے حکم بادلوں کو خیابان نشین ہُوں
جام و سبُو اُچھال بڑی تیز دُھوپ ہے
ممکن ہے ابرِ رحمت یزداں برس پڑے
زُلفوں کی چھاؤں ڈال بڑی تیز دُھوپ ہے
اب شہر آرزُو میں وہ رعنائیاں کہاں
ہیں گلُ کدے نڈھال بڑی تیز دھوپ ہے
سمجھی ہے جس کو سائیہ اُمّید عقلِ خام
ساغرؔ کا ہے خیال بڑی تیز دُھوپ ہے
(ساغر صدیقی)
دو جہانوں کی خبر رکھتے ہیں Do jahanoon ki khabar rakhtey hain
دو جہانوں کی خبر رکھتے ہیں
بادہ خانوں کی خبر رکھتے ہیں
خارزاروں سے تعلق ہے ہمیں
گُلستانوں کی خبر رکھتے ہیں
ہم اُلٹ دیتے ہیں صدیوں کے نقاب
ہم زمانوں کی خبر رکھتے ہیں
اُن کی گلیوں کے مکینوں کی سُنو
لا مکانوں کی خبر رکھتے ہیں
چند آوارہ بگولے اے دوست
کاروانوں کی خبر رکھتے ہیں
زخم کھانے کا سلیقہ ہو جنہیں
وہ نشانوں کی خبر رکھتے ہیں
کُچھ زمینوں کے ستارے ساغرؔ
آسمانوں کی خبر رکھتے ہیں
(ساغر صدیقی)
بزمِ کونین سجانے کے لیے آپ ﷺ آئے Bazm-e-qounain sajaney key liyey app aayey
بزمِ کونین سجانے کے لیے آپ ﷺ آئے
شمعِ توحید جلانے کے لیے آپ ﷺ آئے
ایک پیغام ، جو ہو دل میں اُجالا کردے
ساری دُنیا کو سُنانے کے لیے آپ ﷺ آئے
ایک مدّت سے بھٹکتے ہوئے انسانوں کو
ایک مرکز پہ بلانے کے لیے آپ ﷺ آئے
ناخدا بن کے اُبلتے ہوئے طوفانوں میں
کشتیاں پار لگانے کے لیے آپ ﷺ آئے
قافلہ والے بھٹک جائیں نہ منزل سے کہیں
دُور تک راہ دکھانے کے لیے آپ ﷺ آئے
چشمِ بید کو اسرارِ خدائی بخشے
سونے والوں کو جگانے کے لیے آپ ﷺ آئے
(ساغر صدیقی)
نالہ حدودِ کوئے رسا سے گزر گیا Naal hadood-e-koeyay rasa sey guzar gaya
نالہ حدودِ کوئے رسا سے گزر گیا
اب درد دل علاج و دوا سے گزر گیا
ان کا خیال بن گئیں سینے کی دھڑکنیں
نغمہ مقام صورت و صدا سے گزر گیا
اعجاز بے خودی ہے کہ یہ حسن بندگی
اک بت کی جستجو میں خدا سے گزر گیا
انصاف سیم و زر کی تجلی نے ڈس لیا
ہر جرم احتیاج سزا سے گزر گیا
الجھی تھی عقل و ہوش میں ساغر رہ حیات
میں لے کے تیرا نام فنا سے گزر گیا
(ساغر صدیقی)
Subscribe to:
Posts (Atom)