Pages

Subscribe:

Tuesday 12 March 2013

ہر صبح پرندوں نے یہ سوچ کے پر کھولے Har subh parindoon ney yey soch key par kholey

ہر صبح پرندوں نے یہ سوچ کے پر کھولے
اِن آہنی پنجروں کے شاید کوئی در کھولے
ذہنوں پہ تکبّر کے آسیب کا سایہ ہے
اولاد پہ بھی ہم نے اپنے نہ ہنر کھولے
زر دار کے کمرے کی دیوار کے سائے میں
بیٹھے ہیں زمیں زادے کشکولِ نظر کھولے
اس شہر خیانت کے بے مہر مکینوں نے
دیوارِ حفاظت کے دن ڈھلتے ہی در کھولے
ہم سہل پسندوں نے آنکھیں ہی نہیں کھولیں
دھرتی تو ازل سے ہے گنجینۂ زر کھولے
ساون مری آنکھوں سے خوں بن کے برستا ہے
جب کوئی زمیں زادی دربار میں سر کھول

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

نوٹ:- اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔