Pages

Subscribe:

Sunday 30 December 2012

میں نے کب کی ہے ترے کاکل و لب کی تعریف Mein ney kab ki hai teray

میں نے کب کی ہے ترے کاکل و لب کی تعریف
میں نے کب لکھے قصیدے ترے رخساروں کے
میں نے کب تیرے سراپا کی حکایات کہیں
میں نے کب شعر کہے جھومتے گلزاروں کے
جانے دو دن کی محبت میں یہ بہکے ہوے لوگ
کیسے افسانے بنا لیتے ہیں دلداروں کے

میں کہ شاعر تھا مرے فن کی روایت تھی یہی
مجھ کو اک پھول نظر آئے تو گلزار کہوں
مسکراتی ہوئی ہر آنکھ کو قاتل جانوں
ہر نگاہِ غلط انداز کو تلوار کہوں
میری فطرت تھی کہ میں حسنِ بیاں کی خاطر
ہر حسیں لفظ کو درِ مدحِ رخِ یار کہوں

میرے دل میں بھی کھلے ہیں تری چاہت کے کنول
ایسی چاہت کہ جو وحشی ہو تو کیا کیا نہ کرے
گر مجھے ہو بھی تو کیا زعمِ طوافِ شعلہ
تو ہے وہ شمع کہ پتھر کی بھی پرواہ نہ کرے
میں نہیں کہتا کہ تجھ سا ہے نہ مجھ سا کوئی
ورنہ شوریدگیِ شوق تو دیوانہ کرے

کیا یہ کم ہے کہ ترے حسن کی رعنائی سے
میں نے وہ شمعیں جلائی ہیں کہ مہتاب نثار
تیرے پیمانِ وفا سے مرے فن نے سیکھی
وہ دل آویز صداقت کہ کئی خواب نثار
تیرے غم نے مرے وجدان کو بخشی وہ کسک
مرے دشمن مرے قاتل ، مرے احباب نثار

میں کسی غم میں بھی رویا ہوں تو میں نے دیکھا
تیرے دکھ سے کوئی مجروح نہیں تیرے سوا
میرے پیکر میں تری ذات گھلی ہے اتنی
کہ مرا جسم مری روح نہیں تیرے سوا
میرا موضوعِ سخن تُو ہو کہ ساری دنیا
در حقیقت کوئی ممدوح نہیں تیرے سوا
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Friday 28 December 2012

شہر جنوں میں چل مری محرومیوں کی رات shehr-e-janoon mein chal meri mahroomiyoon ki raat

شہر جنوں میں چل مری محرومیوں کی رات
اس شہر میں جہاں ترے خوں سے حنا بنے
یوں رائگاں نہ جائے تری آہِ نیم شب
کچھ جنبشِ نسیم بنے کچھ دعا بنے
اس رات دن کی گردشِ بے سود کے عوض
کوئی عمودِ فکر کوئی زاویہ بنے
اک سمت انتہائے افق سے نمود ہو
اک گھر دیار دیدہ و دل سے جدا بنے
اک داستانِ کرب کم آموز کی جگہ
تیری ہزیمتوں سے کوئی واقعہ بنے
تو ڈھونڈنے کو جائے تڑپنے کی لذتیں
تجھ کو تلاش ہو کہ کوئی با وفا بنے
وہ سر بہ خاک ہو تری چوکھٹ کے سامنے
وہ مرحمت تلاش کرے تو خدا بنے
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Wednesday 26 December 2012

یہ راکھ راکھ رتیں اپنی رات کی قسمت Yey raakh raakh rutein apni raat ki qismat


یہ راکھ راکھ رتیں اپنی رات کی قسمت
تم اپنی نیند بچھاؤ تم اپنے خواب چنو
بکھرتی ڈوبتی نبضوں پہ دھیان کیا دینا
تم اپنے دل میں دھڑکتے ہوے حروف سنو
تمہارے شہر کی گلیوں میں سیل رنگ بخیر
تمہارے نقش قدم پھول پھول کھلتے ر ہیں
وہ رہگزر جہاں تم لمحہ بھر ٹھہر کے چلو
وہاں پہ ابر جھکیں آسماں ملتے رہیں
نہیں ضرور کہ ہر اجنبی کی بات سنو
ہر اک صدا پہ دھڑکنا بھی دل پہ فرض نہیں
سکوت حلقہ زنجیر در بھی کیوں ٹوٹے
صبا کا ساتھ نبھانا جنوں پہ قرض نہیں
ہم ایسے لوگ بہت ہیں جو سوچتے ہی نہیں
کہ عمر کیسے کٹی کس کے ساتھ بیت گئ
ہماری تشنہ لبی کا مزاج کیا جانے ؟
کہ فصل بخشش موج فرات بیت گئ
یہ ایک پل تھا جسے تم نے نوچ ڈالا تھا
وہ اک صدی تھی جو بے التفات بیت گئ
ہماری آنکھ لہو ہے تمہیں خبر ہو گی
چراغ خود سے بجھا ہے کہ رات بیت گئی
مکمل تحریر اور تبصرے >>

تم نے دھرتی کے ماتھے پہ افشاں چُنی Tum ney dharti key mathey pay afshan chunni


تم نے دھرتی کے ماتھے پہ افشاں چُنی
خود اندھیری فضاؤں میں پلتے رہے
تم نے دنیا کے خوابوں کی جنت بُنی
خود فلاکت کے دوزخ میں جلتے رہے
تم نے انسان کے دل کی دھڑکن سُنی
اور خود عمر بھر خوں اُگلتے رہے

جنگ کی آگ دنیا میں جب بھی جلی
امن کی لوریاں تم سناتے رہے
جب بھی تخریب کی تُند آندھی چلی
روشنی کے نشاں تم دکھاتے رہے
تم سے انساں کی تہذیب پھولی پھلی
تم مگر ظلم کے تیر کھاتے رہے


تم نے شہکار خونِ جگر سے سجائے
اور اس کے عوض ہاتھ کٹوا دیئے
تم نے دنیا کو امرت کے چشمے دکھائے
اور خود زہرِ قاتل کے پیالے پیے
تم مرے تو زمانے کے ہاتھوں سے وائے
تم جیے تو زمانے کی خاطر جیے

تم پیمبر نہ تھے عرش کے مدعی
تم نے دنیا سے دنیا کی باتیں کہیں
تم نے ذروں کو تاروں کی تنویر دی
تم سے گو اپنی آنکھیں بھی چھینی گئیں
تم نے دُکھتے دلوں کی مسیحائی کی
اور زمانے سے تم کو صلیبیں ملیں

کاخ و دربار سے کوچۂ دار تک
کل جو تھے آج بھی ہیں وہی سلسلے
جیتے جی تو نہ پائی چمن کی مہک
موت کے بعد پھولوں کے مرقد ملے
اے مسیحاؤ! یہ خود کشی کب تلک
ہیں زمیں سے فلک تک بڑے فاصلے
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Monday 24 December 2012

دامِ خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے Daam-e-khusboo mein girftar saba hai kab sey


دامِ خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے
لفظ اظہار کی اُلجھن میں پڑا ہے کب سے

اے کڑی چُپ کے در و بام سجانے والے
منتظر کوئی سرِ کوہِ ندا ہے کب سے

چاند بھی میری طرح حُسن شناسا نکلا
اُس کی دیوار پہ حیران کھڑا ہے کب سے

بات کرتا ہوں تو لفظوں سے مہک آتی ہے
کوئی انفاس کے پردے میں چھپا ہے کب سے

شعبدہ بازیِ آئینۂ احساس نہ پوچھ
حیرتِ چشم وہی شوخ قبا ہے کب سے

دیکھئے خون کی برسات کہاں ہوتی ہے
شہر پر چھائی ہوئی سُرخ گھٹا  ہے کب سے

کور چشموں کے لئے آئینہ خانہ معلوم!
ورنہ ہر ذرہ ترا عکس نما ہے کب سے

کھوج میں کس کی بھرا شہر لگا ہے امجد
ڈھونڈتی کس کو سرِ دشت ہوا ہے کب سے
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Friday 21 December 2012

حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے Hisaab-e-umer ka itna sa goshwara hai

حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے

کسی چراغ میں ہم ہیں کسی کنول میں تم
کہیں جمال ہمارا کہیں تمہارا ہے

وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشے میں
تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارا ہے

ہر اک صدا جو ہمیں بازگشت لگتی ہے
نجانے ہم ہیں دوبارہ کہ یہ دوبارہ ہے

وہ منکشف مری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں
ہر ایک حُسن کسی حُسن کا اشارہ  ہے

عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دُنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے

کہیں پہ ہے کوئی خُوشبو کہ جس کے ہونے کا
تمام عالمِ موجود استعارا ہے

نجانے کب تھا! کہاں تھا مگر یہ لگتا ہے
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے

یہ دو کنارے تو دریا کے ہو گئے ، ہم تم!
مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارا ہے!
مکمل تحریر اور تبصرے >>

اب تک نہ کھل سکا کہ مرے روبرو ہے کون Ab tak na khul saka keh merey rubroo hai kown


اب تک نہ کھل سکا کہ مرے روبرو ہے کون!
کس سے مکالمہ ہے ! پسِ گفتگو ہے کون!

سایہ اگر ہے وہ تو ہے اُس کا بدن کہاں؟
مرکز اگر ہوں میں تو مرے چار سو ہے کون!

ہر شے کی ماہیت پہ جو کرتا ہے تو سوال
تجھ سے اگر یہ پوچھ لے کوئی کہ تو ہے کون!

اشکوں میں جھلملاتا ہوا کس کا عکس ہے
تاروں کی رہگزر میں یہ ماہ رو ہے کون!

باہر کبھی تو جھانک کے کھڑکی سے دیکھتے،
کس کو پکارتا ہوا یہ کو بہ کو ہے کون!

آنکھوں میں رات آ گئی لیکن نہیں کھلا
میں کس کا مدعا ہوں؟ مری جستجو ہے کون!

کس کی نگاہِ لُطف نے موسم بدل دئیے
فصلِ خزاں کی راہ میں یہ  مُشکبو ہے کون!

بادل کی اوٹ سے کبھی تاروں کی آڑ سے
چُھپ چُھپ کے دیکھتا ہوا یہ حیلہ جُو ہے کون!

تارے ہیں آسماں میں جیسے زمیں پہ لوگ
ہر چند ایک سے ہیں مگر ہو بہو ہے کون!

ہونا  تو چاہیے کہ یہ میرا ہی عکس ہو!
لیکن یہ آئینے میں مرے روبرو ہے کون!

اس بے کنار  پھیلی ہوئی کائنات میں
کس کو خبر ہے کون ہوں میں! اور تُو ہے کون

سارا فساد بڑھتی ہوئی خواہشوں کا ہے
دل سے بڑا جہان میں امجدؔ عدُو ہے کون
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Wednesday 19 December 2012

حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی Hasil-e-Ishq tera husn-e-pashman hi sahi


حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی
میری حسرت تری صورت سے نمایاں ہی سہی
حُسن بھی حُسن ہے محتاجِ نظر ہے جب تک
شعلۂ عشق چراغِ تہِ داماں ہی سہی
کیا خبر خاک ہی سے کوئ کرن پھوٹ پڑے
ذوقِ آوارگیِ دشت و بیاباں ہی سہی
پردۂ گُل ہی سے شاید کوئ آواز آۓ
فرصتِ سیر و تماشاۓ بہاراں ہی سہی
مکمل تحریر اور تبصرے >>

تیرے ملنے کو بے کل ہو گئے ہیں Teray milney ko bekal ho gayey hain


ترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیں
مگر یہ لوگ پاگل ہو گۓ ہیں
بہاریں لے کے آۓ تھے جہاں تم
وہ گھر سنسان جنگل ہو گۓ ہیں
یہاں تک بڑھ گۓ آلامِ ہستی
کہ دل کے حوصلے شل ہو گۓ ہیں
کہاں تک لاۓ ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گۓ ہیں
نگاہِ یاس کو نیند آ رہی ہے
مژہ پر اشک بوجھل ہو گۓ ہیں
انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل  ہو گۓ ہیں
جنھیں ہک دیکھ کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گۓ ہیں
مکمل تحریر اور تبصرے >>

محرومِ خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی Mehroom-e-khawab deeda-e-khayran na tha kabhi

محرومِ خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی
تیرا یہ رنگ اے شبِ ہجراں نہ تھا کبھی
تھا لطفِ وصل اور کبھی افسونِ انتظار
یوں دردِ ہجر سلسلہ جنباں نہ تھا کبھی
پرساں نہ تھا کوئ تو یہ رسوائیاں نہ تھیں
ظاہر کسی پہ حالِ پریشاں نہ تھا کبھی
ہر چند غم بھی تھا مگر احساسِ غم نہ تھا
درماں نہ تھا تو ماتمِ درماں نہ تھا کبھی
دن بھی اُداس اور مری رات بھی اداس
ایسا تو وقت اے غمِ دوراں نہ تھا کبھی
دورِ خزاں میں یوں مرا دل بے قرار ہے
میں جیسے آشناۓ بہاراں نہ تھا کبھی
کیا دن تھے جب نظر میں خزاں بھی بہار تھی
یوں اپنا گھر بہار میں ویراں نہ تھا کبھی
بے کیف و بے نشاط نہ تھی اس قدر حیات
جینا اگرچہ عشق میں آساں نہ تھا کبھی
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Tuesday 18 December 2012

مگر وہ خواب کہ بکھرے تو بے نشاں ٹھہرے Magar wo khawab keh bikhrey to benishan thehrey


گلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی
مگر وہ برگ کہ ٹوٹے تو پھر ہرے نہ ہوئے
مگر وہ سر کہ جھکے اور پھر کھڑے نہ ہوئے
مگر وہ خواب کہ بکھرے تو بے نشاں ٹھہرے
مگر وہ ہاتھ کہ بچھڑے تو استخواں ٹھہرے

گلہ ہوا سے نہیں تُندیِ ہوا سے نہیں
ہنسی کے تیر چلاتی ہوئی فضا سے نہیں
عدو کے سنگ سے اغیار کی جفا سے نہیں

گلہ تو گرتے مکانوں کے بام و در سے ہے
گلہ تو اپنے بکھرتے ہوئے سفر سے ہے

ہوا کا کام تو چلنا ہے اس کو چلنا تھا
کوئی درخت گرے یا رہے اُسے کیا ہے
گلہ تو اہلِ چمن کے دل و نظر سے ہے
خزاں کی دھول میں لپٹے ہوئے شجر سے ہے
گلہ سحر سے نہیں رونقِ سحر سے ہے
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Sunday 16 December 2012

اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو Un jheel si gahri ankoon mein ik sham


اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو
اُس جھیل کنارے پل دو پل
اک خواب کا نیلا پھول کھلے
وہ پھول بہا دیں لہروں میں
اک روز کبھی ہم شام ڈھلے
اُس پھول کے بہتے رنگوں میں
جس وقت لرزتا چاند چلے
اُس وقت کہیں ان آنکھوں میں اس بسرے پل کی یاد تو ہو
اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو
پھر چاہے عُمر سمندر کی
ہر موج پریشاں ہو جائے
پھر چاہے آنکھ دریچے سے
ہر خواب گریزاں ہو جائے
پھر چاہے پھول کے چہرے کا
 ہر درد نمایاں ہو جائے
اُس جھیل کنارے پل دو پل وہ روپ نگر ایجاد تو ہو
دن رات کے اس آئینے سے وہ عکس کبھی آزاد تو ہو
اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Wednesday 12 December 2012

کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا Kia kia nazar ko shoq-e-hawas daikney mein tha


کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا
دیکھا تو ہر جمال اسی آئینے میں تھا

قُلزُم نے بڑ ھ کے چو م لئے پھول سے قدم
دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا

اِک موجِ خونِ خَلق تھی کس کی جبیں پہ تھی
اِک طوقِ فردِ جرم تھا ،کس کے گلے میں تھا

اِک رشتۂ وفا تھا سو کس ناشناس سے
اِک درد حرزِ جاں تھا سو کس کے صلے میں تھا

صہبائے تند و تیز کی حدت کو کیا خبر
شیشے سے پوچھیے جو مزا ٹوٹنے میں تھا

کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسلے
وہ کم سخن نہیں تھا مگر دیکھنے میں تھا

تائب تھے احتساب سے جب سارے بادہ کش
مجھ کو یہ افتخار کہ میں میکدے تھا
مکمل تحریر اور تبصرے >>

چراغِ راہ بُجھا کیا ، کہ رہنما بھی گیا Chriaag-e-rah bhujha kia keh rehnuma bhi gya

چراغِ راہ بُجھا کیا ، کہ رہنما بھی گیا
ہَوا کے ساتھ مسافر کا نقشِ پا بھی گیا
میں پھُول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہُوئی
وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا
بہت عزیز سہی اُس کو میری دلداری
مگر یہ ہے کہ کبھی دل مرا دُکھا بھی گیا
اب اُن دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں
وہ تاک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا
سب آئے میری عیادت کو، وہ بھی آیا
جو سب گئے تو مرا درد آشنا بھی گیا
یہ غربتیں مری آنکھوں میں کسی اُتری ہیں
کہ خواب بھی مرے رُخصت ہیں ، رتجگا بھی گیا
مکمل تحریر اور تبصرے >>

وہ عکسِ موجۂ گل تھا، چمن چمن میں رہا wo aks-e-moja-e-gul tha chaman chaman mein rhah

وہ عکسِ موجۂ گل تھا، چمن چمن میں رہا
وہ رنگ رنگ میں اُترا، کرن کرن میں رہا
وہ نام حاصلِ فن ہوکے میرے فن میں رہا
کہ رُوح بن کے مری سوچ کے بدن میں رہا
سکونِ دل کے لیے میں کہاں کہاں نہ گئی
مگر یہ دل، کہ سدا اُس کی انجمن میں رہا
وہ شہر والوں کے آگے کہیں مہذب تھا
وہ ایک شخص جو شہروں سے دُور بَن میں رہا
چراغ بجھتے رہے اور خواب جلتے رہے
عجیب طرز کا موسم مرے وطن میں رہا
مکمل تحریر اور تبصرے >>

پھر مرے شہر سے گزرا ہے وہ بادل کی طرح Phie mery sheher sey guzra hai wo badal ki tarah


پھر مرے شہر سے گزرا ہے وہ بادل کی طرح
دست گُل پھیلا ہُوا ہے مرے آنچل کی طرح
 کہہ رہا ہے کسی موسم کی کہانی اب تک
 جسم برسات میں بھیگے ہُوئے جنگل کی طرح
اُونچی آواز میں اُس نے تو کبھی بات نہ کی
خفگیوں میں بھی وہ لہجہ رہا کومل کی طرح
 مِل کے اُس شخص سے میں لاکھ خموشی سے چلوں
 بول اُٹھتی ہے نظر، پاؤں کی چھاگل کی طرح
پاس جب تک وہ رہے ، درد تھما رہتا ہے
پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ کے کاجل کی طرح
 اَب کسی طور سے گھر جانے کی صُورت ہی نہیں
 راستے میرے لیے ہو گئے دلدل کی طرح
جسم کے تیرہ و آسیب زدہ مندر میں
دل سرِ شام سُلگ اُٹھتا ہے صندل کی طرح
مکمل تحریر اور تبصرے >>

سکوں بھی خواب ہُوا، نیند بھی ہے کم کم پھر Sakoon bhi khowab howa neend bhi hai kam kam phir


سکوں بھی خواب ہُوا، نیند بھی ہے کم کم پھر
 قریب آنے لگا دُوریوں کا موسم پھر
بنا رہی ہے تری یاد مُجھ کو سلکِ کُہر
 پرو گئی مری پلکوں میں آج شبنم پھر
وہ نرم لہجے میں کُچھ کہہ رہا ہے پھر مُجھ سے
 چھڑا ہے پیار کے کومل سُروں میں مدھم پھر
تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سُنوں
 اُلجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر
نہ اُس کی بات میں سمجھوں نہ وہ مری نظریں
 معاملاتِ زباں ہو چلے ہیں مبہم پھر
یہ آنے والا نیا دُکھ بھی اُس کے سر ہی گیا
 چٹخ گیا مری انگشتری کا نیلم پھر
وہ ایک لمحہ کہ جب سارے رنگ ایک ہوئے
 کِسی بہار نے دیکھا نہ ایسا سنگم پھر
بہت عزیز ہیں آنکھیں مری اُسے، لیکن
وہ جاتے جاتے انہیں کر گیا ہے پُر نم پھر
مکمل تحریر اور تبصرے >>

اپنی رسوائی، ترے نام کا چرچا دیکھوں Apni ruwai tery naam ka charcha daikhoon


اپنی رسوائی، ترے نام کا چرچا دیکھوں
اِک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھُل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
شام بھی ہو گئی، دھُندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بھُولنے والے، میں کب تک ترا رَستا دیکھوں
ایک اِک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خُود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں
کاش صندل سے مری مانگ اُجالے آ کر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ ، جو اپنا دیکھوں
تو مرا کُچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات!
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں!
بند کر کے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بُوجھے جانے کا میں ہر روز تماشہ دیکھوں
سب ضِدیں اُس کی میں پوری کروں ، ہر بات سُنوں
ایک بچے کی طرح سے اُسے ہنستا دیکھوں
مُجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں
پھُول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھِل جائے
پنکھڑی پنکھڑی اُن ہونٹوں کا سایا دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پُوجا ہے، اُسے بس اِک بار
اب بن کر تری آنکھوں میں اُترتا دیکھوں
تو مری طرح سے یکتا ہے، مگر میرے حبیب!
میں آتا ہے، کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
ٹُوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں
مکمل تحریر اور تبصرے >>

چارہ گر، ہار گیا ہو جیسے Chara ghar haar gya ho jaisey


چارہ گر، ہار گیا ہو جیسے
اب تو مرنا ہی دَوا ہو جیسے
مُجھ سے بچھڑا تھا وہ پہلے بھی مگر
اب کے یہ زخم نیا ہو جیسے
میرے ماتھے پہ ترے پیار کا ہاتھ
رُوح پر دست صبا ہو جیسے
یوں بہت ہنس کے ملا تھا لیکن
دل ہی دل میں وہ خفا ہو جیسے
سر چھپائیں تو بدن کھلتا ہے
زیست مفلس کی رِدا ہو جیسے
مکمل تحریر اور تبصرے >>

بعد مُدت اُسے دیکھا، لوگو Baad mudat usey daikha logo

بعد مُدت اُسے دیکھا، لوگو
 وہ ذرا بھی نہیں بدلا، لوگو
خُوش نہ تھا مُجھ سے بچھڑ کر وہ بھی
 اُس کے چہرے پہ لکھا تھا، لوگو
اُس کی آنکھیں بھی کہے دیتی تھیں
 رات بھر وہ بھی نہ سویا، لوگو
اجنبی بن کے جو گزرا ہے ابھی
 تھا کِسی وقت میں اپنا ، لوگو
دوست تو خیر کوئی کس کا ہے
 اُس نے دشمن بھی نہ سمجھا، لوگو
رات وہ درد مرے دل میں اُٹھا
 صبح تک چین نہ آیا ، لوگو
پیاس صحراؤں کی پھر تیز ہُوئی
اَبر پھر ٹوٹ کے برسا، لوگو
مکمل تحریر اور تبصرے >>

آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو Aaj malboos mein hai kaisi thankan ki khusboo

آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو
رات بھر جاگی ہوئی جیسے دُلہن کی خوشبو
پیرہن میرا مگر اُس کے بدن کی خوشبو
اُس کی ترتیب ہے ایک ایک شکن کی خوشبو
موجۂ گُل کو ابھی اِذنِ تکلم نہ ملے
پاس آتی ہے کسی نرم سخن کی خوشبو
قامتِ شعر کی زیبائی کا عالم مت پُوچھ
مہربان جب سے ہے اُس سرد بدن کی خوشبو
ذکر شاید کسی خُورشید بدن کا بھی کرے
کُو بہ کُو پھیلی ہُوئی میرے گہن کی خوشبو
عارضِ گُل کو چھُوا تھا کہ دھنک سی بکھری
کِس قدر شوخ ہے ننھی سی کرن کی خوشبو
کِس نے زنجیر کیا ہے رمِ آہو چشماں
نکہتِ جاں ہے انہیں دشت و دمن کی خوشبو
اِس اسیری میں بھی ہر سانس کے ساتھ آتی ہے
صحنِ زنداں میں انہیں دشت وطن کی خوشبو
مکمل تحریر اور تبصرے >>

قریۂ جاں میں کوئی پھُول کھِلانے آئے Qarya-e-jaan mein koi phool khilaney ayey


قریۂ جاں میں کوئی پھُول کھِلانے آئے
وہ مرے دِل پہ نیا زخم لگانے آئے
میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے
وہ مرے گھر کے دَر و بام سجانے آئے
اُس سے اِک بار تو  رُوٹھوں میں اُسی کی مانند
اور مری طرح سے وہ مُجھ کو منانے آئے
اِسی کوچے میں کئی اُس کے شناسا بھی تو ہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
اب نہ پُوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ
وہ اگر آئے تو کُچھ بھی نہ بتانے آئے
ضبط کی شہر پناہوں کی، مرے مالک!خیر
غم کا سیلاب اگر مجھ کو بہانے آئے
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Monday 10 December 2012

خدا اور خلق خدا Khuda owr khalq-e-khuda


یہ خلقِ خُدا جو بکھرے ہوئے
بے نام و نشاں پتوں کی طرح
بے چین ہوا کے رستے میں گھبرائی ہوئی سی پھرتی ہے
آنکھوں میں شکستہ خواب لئے
سینے میں دلِ بے تاب لئے
ہونٹوں میں کراہیں ضبط کئے
ماتھے کے دریدہ صفحے پر
اک مہرِ ندامت ثبت کئے ٹھکرائی ہوئی سی پھرتی ہے
اے اہلِ چشم اے اہلِ جفا!
یہ طبل و علم یہ تاج و کلاہ و تختِ شہی
اس وقت تمہارے ساتھ سہی
تاریخ مگر یہ کہتی ہے
اسی خلقِ خُدا کے ملبے سے اک گونج کہیں سے اُٹھتی ہے
یہ دھرتی کروٹ لیتی ہے اور منظر بدلے جاتے ہیں
یہ طبل و علم یہ تختِ شہی ، سب خلقِ خُدا کے ملبے کا
اک حصہ بنتے جاتے ہیں
ہر راج محل کے پہلو میں اک رستہ ایسا ہوتا ہے
مقتل کی طرف جو کھُلتا ہے اور بن بتلائے آتا ہے
تختوں کو خالی کرتا ہے اور قبریں بھرتا جاتا ہے
مکمل تحریر اور تبصرے >>

موسم اچھا ہے Mosam acha hai


رنگ دھنک نے بکھرائے ہیں موسم اچھا ہے
گئے زمانے یاد آئے ہیں موسم اچھا ہے
آنکھیں ، چہرے ، خوشبو، وعدے ، آنسو ، یادیں ،پھول
ایک اک کر کے لوٹ آئے ہیں موسم اچھا ہے
شامِ شفق کی سیر بہانے تم بھی آ جاؤ
دوست پُرانے سب آئے ہیں موسم اچھا ہے
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Friday 7 December 2012

وہ نظر کامیاب ہو کے رہی Wo nazar kamyab ho k rahi

وہ نظر کامیاب ہو کے رہی
دل کی بستی خراب ہو کے رہی

عشق کا نام کیوں کریں بدنام
زندگی تھی عذاب ہو کے رہی

نگہ شوق کا حال نہ پوچھ
سر بسر اضطراب ہو کے رہی

چشم ساقی کی تھی کبھی مخمور
خود ہی آخر شراب ہو کے رہی

تابِ نظارہ لا سکا نہ کوئی
بے حجابی، حجاب ہو کے رہی

ہم سے فانی نہ چھپ سکا غم دوست
آرزو، بے نقاب ہو کے رہی
مکمل تحریر اور تبصرے >>